جابر جعفی فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن علی نے کہا: ’’جابر! مجھے معلوم ہوا ہے کہ عراق میں بعض لوگ ہماری محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ابوبکر و عمر کو گالیاں دیتے ہیں ، ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ میں نے ان کو اس کا حکم دیا ہے، میری طرف سے ان کو یہ بات پہنچا دو کہ میں اللہ کے یہاں ان سے بری ہوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (میری) کی جان ہے، اگر مجھے ذمے دار بنایا جائے تو میں ان کا خون کرکے اللہ کا تقرب حاصل کروں گا، اگر میں ابوبکر و عمر کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا نہ کروں تو مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش نہ ہو‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا: ’’جس نے ابوبکر اور عمر کی فضیلت نہیں جانی وہ سنت سے ناواقف ہے۔‘‘ [1]
امام زید بن علی بن حسین رحمہ اللہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ثنا خواں :
ہاشم بن برید نے زید بن علی بن حسین سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ شکر بجا لانے والوں کے امام تھے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ﴾’’اور اللہ شکر بجا لانے والوں کو عنقریب بدلہ دے گا‘‘ پھر فرمایا: ابوبکر سے براء ت کرنا علی سے براء ت کرنا ہے۔‘‘[2]
امام زید سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں فرماتے تھے: ’’میں نے اپنے گھر والوں میں سے جس کسی کو بھی سنا تو ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے ہی سنا۔‘‘[3]
یحییٰ بن ابوبکر عامری نے اپنی کتاب ’’الریاض المستطابۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ وہ امام منصور باللہ عبداللہ بن حمزہ (جو زیدیہ فرقے کے کبار ائمہ میں سے ہیں ) کی ایک بات سے واقف ہوئے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ’’جواب المسائل التہامیۃ‘‘ میں لکھا ہے، جس سے صحابہ کرام سے متعلق امام زید کا نظریہ واضح ہوتا ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’انہوں نے مجملاً صحابہ کی تعریف کی ہے اور دوسروں پر ان کی خصوصیات کو گنوایا ہے‘‘، پھر انہوں نے فرمایا: ’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور اس کے بعد کے لوگوں میں سب سے بہترین ہیں ،
|