دَعَاہُ اِلٰہُ الْحَقِّ ذُو الْعَرْشِ دَعْوَۃً
اِلٰی جَنَّۃٍ یَحْیَا بِہَا وَ سُرُوْرٍ لِحَمْزَۃَ
فَذٰلِکَ مَا کُنَّا نُرَجِّیْ وَنُرْتَجِیْ
یَوْمَ الْحَشْرِ خَیْرُ مَصِیْرِ[1]
’’عرش والے سچے معبود نے حمزہ کو جنت کی طرف بلایا تھا کہ حمزہ جنت کی بدولت سرمدی حیات جیئیں اور ابدی سرور حاصل کریں ، اسی بات کی ہمیں امید تھی اور روزِ قیامت ہمیں نیک ٹھکانے اور انجام کی امید ہے۔‘‘
یوں اس نیک اور ہاشمی خاتون نے مصیبت کے وقت صبر کرنے کا بے مثال سبق دیا جس میں دور دور تک گریہ ونوحہ اور ہائے وائے کا نام و نشان نہیں ملتا۔ بلکہ یہاں تو صرف تسلیم و رضا اور صبر و شکر ہے، اور حکم خدا کے آگے اطاعت و فرمانبرداری کے نظارے ہیں ۔
بے شک سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا امت مسلمہ کی عورتوں کے لیے سچے ایمان، نیک صبر، ایک بے مثال نمونہ ہیں ، مصائب و شدائد آپ کو بے صبر نہ کرسکے۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے ۲۰ ھ میں خالفت فاروقی میں انتقال فرمایا۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے ۷۳ سال عمر پائی۔ امیر المومنین خلیفہ راشد سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن کی گئیں ۔[2]
رضی اللّٰہ عنہا وارضاھا
|