Maktaba Wahhabi

136 - 378
پر جھپٹتی ہیں جس کے بچوں پر کسی نے حملہ کر دیا ہو۔ آپ نے ایک بھاگنے والے کے ہاتھ سے نیزا چھینا اور دشمنوں کی صفوں پر کسی جری شہسوار کی طرح پل پڑیں اور ایک کے بعد دوسرے کو نیزے میں پرونے لگیں ۔ آپ صفیں اور چہرے الٹتی رہیں اور وہ بھاگتے مسلمانوں کو نہایت گرج دار آواز کے ساتھ یہ کہنے لگیں : ’’تمہارا ناس ہو! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ کر بھاگتے ہو؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پہچان لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ کہیں سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کو نہ دیکھ لیں جس سے ان کے دل کو شدید دکھ پہنچ سکتا تھا۔ کیونکہ مشرک سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش کا مثلہ بنا چکے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرما کر اشارہ کیا: اے زبیر! ایک عورت، اے زبیر ایک عورت (یعنی تمہاری والدہ چلی آرہی ہیں انہیں آگے بڑھنے سے روکو)۔ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے پلٹ کر والدہ سے کہا: ’’اماں جان! یہاں سے دور رہیے!‘‘ اس پر والدہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’پرے ہٹ! تیری ماں نہ رہے!‘‘ یہ جواب سن کر سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اماں جان! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو لوٹ جانے کا حکم دیتے ہیں ۔‘‘ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’وہ کیوں ! مجھے خبر مل چکی ہے کہ میرے بھائی کا مشرکوں نے مثلہ بنا دیا ہے لیکن اللہ کے رستے میں یہ بے حد معمولی بات ہے۔‘‘ یہ جواب سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے زبیر! انہیں جانے دو۔‘‘ چنانچہ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا رستہ چھوڑ دیا گیا۔ جب جنگ کے شعلے سرد پڑ گئے، ہتھیار ڈال دیے گئے تو سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آپ کے بھائی کا شکم اور سینہ چاک کر دیا گیا ہے، ناک، کان کاٹ کر چہرہ بگاڑ دیا گیا تھا۔ یہ جگر خراش اور دل آزار منظر کو دیکھ کر سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا دل بھر آیا۔ آپ نے سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار کی اور یہ کہا: ’’یہ سب راہِ خدا میں ہوا۔ میں اللہ کی تقدیر پر راضی ہوں اور اللہ کی قسم! میں صبر کروں گی اور رب کی مشیئت سے اجر کی امید رکھوں گی۔‘‘ پھر آپ نے سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان اشعار کے ساتھ خراج عقیدت پیش کی۔
Flag Counter