Maktaba Wahhabi

181 - 378
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں انہیں (سمندر کے) جہاد پر نہ بھیجوں گا۔ جب تک کہ میری آنکھوں نے پانی اٹھایا ہوا ہے (یعنی جب تک میری آنکھوں میں تری ہے۔ یعنی جب تک میں زندہ ہوں مسلمانوں کو سمندری جہاد پر نہ بھیجوں گا)۔ میرا نہیں گمان کہ آپ سیّدناعمر کی رائے کے خلاف چلیں گے۔‘‘ ابو اعور کی یہ بات سن کر آپ نے انہیں فرمایا: ’’اللہ کی قسم! ہمیں ان پر ڈر نہیں ۔ اور یہ لوگ اپنے ٹھکانوں پر رہنے پر راضی ہیں ۔ تو جہاد نہ کریں ۔‘‘ پھر آپ نے لوگوں میں خطبہ دیا، اور انہیں جہاد افریقہ کی ترغیب دی۔ آپ کی ترغیب پر کبار صحابہ اور آلِ بیت رسول رضی اللہ عنہم اجمعین کے جوان غزوۂ افریقہ کے لیے تیار ہوگئے جن میں عبداللہ بن زبیر، ابو ذر غفاری،[1] ابن عمر،[2]ابن عباس، ابن جعفر اور جنابِ حسنین رضی اللہ عنہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ [3] پھر یہ لشکر جرار سیّدناحارث بن حکم رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر مصر کے شہر ’’فسطاط‘‘ جا پہنچا، وہاں سب نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم سے بالاتفاق سیّدنا عبداللہ بن سعد بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر بنالیا۔ یوں مجاہدین کی تعداد ۲۰ ہزار تک پہنچ گئی۔ اب افواجِ اسلام نے مغرب کا رخ کیا اور ’’برقہ‘‘ جا پہنچا۔ وہاں کے لوگوں نے اس کوچ کے دوران افواجِ اسلام کے ساتھ کوئی معارضہ نہ کیا۔ کیونکہ اہل مصر جنابِ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دورِ امارت میں مسلمانوں کے عہد میں داخل ہوچکے تھے۔ یہاں پر عقبہ بن نافع فہری بھی اپنا لشکر لے کر مجاہدین کے ساتھ آ ملے۔ اب جیش اسلام نے افریقہ (موجودہ تیونس) کی طرف کوچ شروع کیا۔ مجاہدین کی یہ فوجِ ظفر موج منزل پہ منزل طے کرتی ’’طرابلس‘‘ پہنچ گئی۔ اس دوران بے شمار نو مسلم بربر
Flag Counter