Maktaba Wahhabi

182 - 378
بھی مجاہدین کے لشکر جرار میں جہاد کی غرض سے شامل ہوگئے۔ بربر اپنے اسلام پر بے حد پختہ اور مستحکم تھے۔ بربروں کے ساتھیوں نے ۲۶ ھ میں طرابلس کو دوبارہ فتح کرنے میں بے حد مدد دی۔ مجاہدین افریقہ میں داخل ہوگئے تاکہ اہل افریقہ کو ظالم رومیوں کے پنجۂ جبرو استبداد سے نجات دلائیں۔ جنہوں نے اہل افریقہ کو ظالمانہ ٹیکسوں اور برے سلوک کی چکی میں پیس رکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اصل افریقہ کی تذلیل و اہانت بھی کرتے تھے۔ لشکر کے سپہ سالار سیّدناعبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے افریقہ کے شہر ’’سبیطلہ‘‘ پر دھاوا بولنا زیادہ مناسب سمجھا کیونکہ وہاں بازنطینی حاکم جرجیر ایک مضبوط قلعہ بناکر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے قلعہ میں بے شمار فوج بھی اکٹھی کی ہوئی تھی۔ سیّدناعبداللہ بن ابی سرح رحمہ اللہ نے تال سے پہلے جرجیر کی طرف اپنا قاصد بھیجا اور اس کے سامنے تین باتیں رکھیں کہ وہ ان میں سے جس کو چاہے اختیار کرے۔ یا تو اسلام لے آئے، یا اپنے دین پر رہتے ہوئے جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائے یا پھر جنگ کے لیے تیار ہو جائے۔ جرجیر نے جنگ کرنے کو ترجیح دی۔ اس کی فوج میں ایک لاکھ بیس ہزار بربری بھی شامل تھے جو اس کے حکم کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کی فوج میں موجود تھے۔ پھر دونوں فریق میں جنگ کا طبل بج گیا اور گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی۔ روزانہ دن کا اجالا ہوتے ہی جنگ شروع ہو جاتی جو ظہر کے وقت تک جاری رہتی۔ جب ظہر کی اذان دی جاتی تو دونوں فوجیں اپنی اپنی کمین گاہوں میں چلی جاتیں یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ جنگ کا پانسہ کسی فریق کی طرف بھی نہ جھک رہا تھا۔ فتح میں تاخیر سے بعض اکابر صحابہ کو بے حد تشویش ہوئی۔ چنانچہ سیّدناابن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر جناب عبداللہ بن ابی سرح رضی اللہ عنہ کو یہ مشورہ دیا کہ آپ لشکر میں یہ اعلان کرا دیجیے کہ جو بھی جرجیر کا سر لے کر آئے گا۔ اسے ایک لاکھ انعام دینے کے ساتھ ساتھ جرجیر کی بیٹی کی شادی بھی اس کے ساتھ کر دوں گا۔ اسے ان علاقوں کا امیر بھی بنا دوں گا۔ جرجیر یہ اعلان سن کر بے حد خوفزدہ ہوگیا۔ اس کے بعد سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر سے یہ بھی کہا کہ جنگ طول پکڑتی جا رہی ہے۔ جرجیر کو متواتر کمک پہنچ
Flag Counter