تھے۔ اتنے میں آیت سجدہ آگئی۔ سب نے سجدہ کیا تو آپ نے اندر سے ندا کی۔ ’’لوگو! یہ سجدہ اور تلاوتِ قرآن تو ہو گیا بھلا وہ رونا کہاں گیا؟ [1]
سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے خلفائے راشدین کے مبارک ادوار کو پایا اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہا کے زمانہ میں جا کر ۵۰ ھ کو رب ذوالجلال کے جوار رحمت میں جا بسیں ۔
سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اسلام لے آنے اور ام المومنین بننے کے بعد دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے بالکل منہ موڑ لیا حتی کہ سونے کا کچھ زیور جو مدینہ آنے کے وقت کانوں میں تھا، اس میں سے کچھ تو سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو باقی کا دوسری عورتوں کو دے کر دنیا کا قصہ اسی دنیا میں تمام کر دیا۔ اور ہمہ وقت زہد و عبادت میں مشغول ہوگئیں ۔ آپ نے اہل ایمان کو قرابتداریوں کی نزاکت کی تعلیم دی، ان کے حقوق کی حفاظت کرکے دکھلائی۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ نے اپنے حسن کردار سے سوکنوں کو حسن سلوک کی تعلیم دی۔ چنانچہ آپ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک ہزار دینار کی وصیت کی۔ [2] آپ بھی دیگر ازواجِ مطہرات کے ساتھ جنت البقیع میں مدفون ہوئیں ۔
رب تعالیٰ ام المومنین سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اور دیگر ازواجِ مطہرات سے راضی ہو۔
|