Maktaba Wahhabi

89 - 378
صرف اسی بات پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس حرکت پر یہ کہہ کر سرزنش فرمائی: ((اِتَّقِی اللّٰہَ یَا حَفْصَۃُ)) [1] ’’اے حفصہ! اللہ سے ڈرو۔‘‘ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بڑی عاقلہ، بردبار اور صاحب فضل وکمال تھیں ۔ جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جو کتب سیرت میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی ایک باندی نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جاکر یہ کہہ دیا کہ صفیہ ابھی تک ہفتہ کے دن کو محبوب رکھتی ہیں اور یہود کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے یہ دونوں باتیں دریافت کر بھیجیں تو آپ نے نہایت بردباری اور دقت فہم کے ساتھ یہ جواب دیا کہ جب سے رب تعالیٰ نے مجھے ہفتہ کے بدلے جمعہ کا دن دیا ہے مجھے ہفتہ کبھی اچھا نہیں لگا۔ رہے یہود تو ان سے میری قرابتیں ہیں اس لیے میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہوں ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ جوابات کہلوا بھجوانے کے بعد آپ نے اس باندی کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ سچ سچ بتاؤ، تمہیں اس امر پر کس نے آمادہ کیا تھا؟ وہ بولی شیطان نے، اس پر آپ نے فرمایا: ’’جا تو اللہ کے لیے آزاد ہے۔‘‘ [2] سبحان اللہ! آج ہم میں سے کون ہے جو برائی کے بدلے ایسا احسان کرے؟ ایسا کرنے کی ہمت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ اور ایسا عظیم لوگ ہی کیا کرتے ہیں ۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اسلام لے آنے کے بعد بھی اپنے قرابتداروں سے قطع تعلق نہ کیا تھا چنانچہ آپ بنو نضیر کے یہود سے ملنے بھی جاتی تھیں اور ان کے ساتھ صلہ رحمی بھی کرتی تھیں ۔ آج ہے کوئی ایسا جو اپنے قرابتداروں کے ساتھ اور وہ بھی کافروں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کرے؟ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں کو نصیحت کرنے اور انہیں اللہ یاد دلانے میں کبھی بخل سے کام نہ لیا تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ چند لوگ جمع ہوکر آپ کے حجرہ مبارکہ میں ذکر وتلاوت میں مشغول
Flag Counter