Maktaba Wahhabi

88 - 378
دلاسا دیا کرتے تھے اور انہیں غم گین نہ ہونے دیتے تھے۔ ایک دفعہ ام المومنین سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو عار دلاتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ (اگرچہ زوجۂ رسول ہونے میں تم ہماری شریک ہو لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں ہم تم سے زیادہ محترم ہیں کیونکہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بھی ہیں جب کہ) تم ایک یہودی کی بیٹی ہو۔ اس بات سے سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو غیرت آگئی اور فرطِ غم سے رونے لگیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کو روتے دیکھا تو اس کی وجہ دریافت فرمائی۔ آپ نے عرض کیا: یہ حفصہ اور عائشہ مجھے چھیڑتی ہیں اور یہودن (یعنی یہودی کی بیٹی) کہتی ہیں ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ان الفاظ کے ساتھ تسلی دی کہ: ((اِنَّکِ لَاِبْنَۃُ نَبِيٍ وَاِنَّ عَمَّکِ لَنَبِيٌّ وَاِنَّکِ لَتَحْتُ نَبِيٍّ)) ’’(تم نے انہیں ایسے کیوں نہ کہہ دیا کہ تم مجھ سے بہتر کیونکر ہوسکتی ہو جب کہ) تم ایک پیغمبر کی بیٹی ہو (سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سیّدنا ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ) اور تمہارے چچا بھی پیغمبر ہیں (سیّدنا موسیٰ علیہ السلام سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے چچا تھے) اور تم ایک پیغمبر (یعنی جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیوی ہو۔‘‘ پھر فرمایا: ((فَفِیْمَ تَفْخَرُ عَلَیْکِ)) ’’پس وہ کس بنا پر تم پر فخر کرتی ہے۔‘‘ سبحان اللہ! غور سے دیکھیے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھریلو جھگڑوں کو کس خوش اسلوبی کے ساتھ حل کر دیا کرتے تھے کہ سب ازواج میں ایک دوسرے کے احترام کی فضا کو قائم رکھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے عمدہ الفاظ اور لطیف تعبیرات کے ساتھ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے غم کو غلط کر دیا اور ان کا رونا ختم کرایا۔ اور انہیں ایسی مبنی پر حقیقت بات کہی جس سے سیّدہ صفیہ کے چہرے پر سے غم کے سائے چھٹ گئے اور مسکراہٹ بکھر گئی۔ بلکہ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو مزید ایسی بات بتلائی جس کی بنا پر وہ بجا طور پر دوسری ازواجِ مطہرات پر فخر کرسکتی تھیں اور
Flag Counter