کنانہ کا اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الوفات میں دیکھ کر آپ بے حد دل گرفتہ اور غم گین ہو گئی تھیں اور یہاں تک تمنا کرنے لگیں کہ کاش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ آپ بیمار ہو جاتیں ۔ چنانچہ اسی مرض الوفات میں ا یک مرتبہ تمام ازواجِ مطہرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئیں تو سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا عرض کرنے لگیں : ’’اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میری یہ تمنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدلے یہ تکلیف مجھے ہو جائے۔‘‘ بعض ازواجِ مطہرات کو اس کالم کی صداقت میں کچھ شبہ ہوا اور وہ ایک دوسرے کی طرف اشارہ کرنے لگیں ۔ اور چہروں سے بھی اس شبہ کا اظہار ہوگیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ بھی لیا اور محسوس بھی کرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((وَاللّٰہِ اِنَّھَا لَصَادِقَۃٌ))
’’اللہ کی قسم! یہ سچی ہے۔‘‘ [1]
یہ قصہ ابن حجر نے الاصابہ میں اور ابن سعد نے الطبقات میں زید بن اسلم رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے۔ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا بے حد بزرگ، عزت دار، عقل و فہم سے مالا مال، اونچے خاندان اور بلند حسب نسب کی مالک تھیں حسن وجمال موروثی تھا اور جملہ شمائل وخصائل خاندانی تھے۔ مدینہ منورہ پہنچیں تو مدینہ کی خواتین میں آپ کی خوبصورتی کی دھوم مچ گئی اور سب عورتیں ایک نظر دیکھنے کے لیے امنڈی چلی آئیں ۔ حتی کہ سیّدہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی انصار کی عورتوں کے ساتھ چہرے پر نقاب اوڑھے دیکھنے آئیں ۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیا۔ واپسی پر جب جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: اے عائشہ! کیا دیکھا؟ تو بولیں : ایک یہودیہ دیکھ کر آرہی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایسا مت کہو کہ اب وہ مسلمان ہوگئی ہیں اور خوب اسلام لائی ہیں ۔‘‘
سیّدہ صفیہ کے حسن وجمال نے دیگر ازواجِ مطہرات میں ایک رشک پیدا کر دیا تھا جو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں بھی تھا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کو تسلی اور
|