آلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جس عظیم شخصیت پر گفتگو کرنے چلے ہیں وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِ نظر، لخت جگر اور دل کی ٹھنڈک سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ہیں ۔ بلاشبہ یہ کوئی معمولی خاتون نہ تھیں ۔ یہ وہ خاتون ہیں جن کی نظیر ومثیل لانے سے تاریخ قاصر ہے، صفات وکمالات میں کوئی ان کے قریب بھی نہ پہنچ سکی۔ روزنِ تاریخ سے ایسی عظمتیں اور رفعتیں کسی اور کے دامن میں نظر نہیں آتیں ۔ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین، عزیز ترین اور بے حد لاڈلی بیٹی ہیں مورخین اور سیرت نگاروں نے ’’جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے عظیم لقب
کے ساتھ سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کو یاد کیا ہے۔ فضائل ومناقب سیّدہ کے فرشِ راہ تھے، خوبیاں راہ میں نظریں بچھاتی تھیں ، محامد ومحاسن ابرباران کی طرح سیدہ رضی اللہ عنہا پر برستے تھے۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس جہان میں کیا تشریف لائیں کہ کاتب تقدیر کو نئے دفاتر میں اس عظیم خاتون کی صفات قلم بند کرنی پڑیں ۔
بلاشبہ میرا یہ مختصر سا مضمون میرا لحوتاہ قلم، نارسا ذہن ناقص فہم، بے بضاعت علم، ادھوری تعبیریں بکھرے الفاظ، پراگندہ اسالیب، سیّدہ صدیقہ طاہرہ فاطمۃ الزہراء کی کسی ادنی خوبی کے بیان کے ادائے حق سے قاصر ہیں بلکہ اندیشہ اس بات کا ہے کہ زبان و بیان کی بے مائیگی اور بے بسی طاہرۂ کائنات کی شان میں سوئے ادب کا سبب نہ بن جائے۔
سیّدہ فاطمۃ الزہراء آلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مایہ ناز بلند مرتبہ اور جلیل القدر خاتون ہیں جنہیں زبانِ رسالت صداقت بیان سے خاتونِ جنت کا مژدہ ملا، زبانیں آپ کی خوبیوں کے شمار کے آگے لاچار ہیں ، زبان میں ان کے گنوانے کی سکت نہیں ۔ اس سب کے باوجود بندہ عاجز نے صفات وکمالات کے اس بحر ناپیدا کنار کے چند قطرے نوکِ قلم کرنے کی جرأت محض اس امید پر کی کہ قبر کے اندھیروں میں روشنی کا کوئی بندوبست ہو جائے، قیامت کی ہولناکیوں میں امن کی کوئی جگہ نصیب ہو جائے، حساب کی سکتی سے چھٹکارے کی کوئی راہ نکل آئے۔ اور عرش کے سائے میں قدم رکھنے کی نعمت مرحمت ہو جائے کہ سیّدہ فاطمۃ الزہراء کا ذکر خیر نرا سعادت برکت، رحمت اور نجات ہے۔ اور دوسری غرض یہ ہے کہ آج کی نوجوان
|