Maktaba Wahhabi

93 - 378
مسلمان عورت کے سامنے سیّدہ طاہرہ بتول جگر گوشۂ رسول کی مبارک سیرت کے درخشندہ پہلو آجائیں جن کو اسوہ بنا کر اور ان کی اقتداء کرکے دنیا و آخرت کی سعادتوں سے سرفراز ہو۔ اور اس کی بھٹکتی اور بے راہ زندگی کو قرار اور وقار نصیب ہو۔ اور جن جن نعمتوں اور عزتوں اور رفعتوں سے آج کی عورت محروم ہے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی پاکیزہ ترین سیرت کی روشنی میں وہ سب نعمتیں اور عزتیں نصیب ہوں ۔ تیسرے آج جو مسلمان خاتون کسی نیک ترین، صالح ترین پاکیزہ اور بلند ترین اسوہ اور نمونہ کی تلاش میں ہو اس کے سامنے سیّدہ فاطمۃ الزہراء کی ذاتِ بابرکات کا ایسا نمونہ آجائے کہ اس کے بعد اسے کسی اور قدوہ، اسوہ اور نمونہ کی ضرورت نہ رہے۔ افسوس کہ آج کی عورت ان عورتوں کو نمونہ بنا کر چل رہی ہیں جہنم کی راہ تک رہی ہے، عذاب ان کے منتظر ہیں ، اندھے گونگے اور بہرے فرشتے ان کے استقبال کو تیار بیٹھے ہیں ۔ وَاَیْنَ مَنْ کَانَتِ الزَّہْرَائُ اُسْوَتُھَا مِمَّنْ تَقَفَّتُ خُطَی مَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ’’بھلا اس عورت کا جو سر پر جہنم کا ایندھن لاد کر چلنے والی کے پیچھے چلتی ہو، اس عورت سے کیا واسطہ جس کا اسوہ اور قدوہ سیّدہ فاطمۃ الزہراء ہو۔‘‘ جی ہاں ! آلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے یہ ذکر ہے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا۔ جن کی عظمت کے آگے عظمتوں کے سر خم ہیں یہ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر ہیں ۔ یہ طاہرہ، عابدہ، ساجدہ زہراء (روشن و تابناک) اور بتول ہیں جنہوں نے سب سے رشتے کاٹ کے ایک اللہ کے ساتھ رشتہ لگا لیا تھا اور اس کی عبادت میں تھک تھک کر یہ دنیا چھوڑ گئیں تھیں ۔ سیّدہ فاطمۃ الزہراء کی پاکیزہ ذات کے بارے میں گفتگو کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نفس انسانی کی سب سے بلند جلیل القدر اور عظیم المرتبت صفت ’’حیاء‘‘ کے بارے میں گفتگو کرنے چلے ہیں ۔ سیّدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا سراپا حیاء تھیں ۔ ام جعفر بنت محمد بن جعفر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیّدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے اسماء! عورتوں کے ساتھ ان کے
Flag Counter