مرنے کے بعد جو کچھ کیا جاتا ہے، مجھے یہ بے حد ناگوار ہے کہ ان پر بس ایک چادر ڈال دی جاتی ہے جس سے ان کے بدنوں کے اعضاء نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘
یہ بات سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے اپنے مرض الوفات میں سیّدہ اسماء بنت عمیس خثعمیہ سے ارشاد فرمائی تھی۔ جو مرض کی اس حالت میں آپ کی تیمار داری اور عیادت کی غرض سے آتی تھیں ۔ یہ اسماء جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ہیں ۔ اس زمانہ میں عورت کا جنازہ اٹھاتے وقت اس پر فقط ایک بڑی سی چادر ڈال دی جاتی تھی۔ جس سے اُس کے بدن کے آثار اور اس کا طول و عرض نمایاں نظر آتا تھا۔
سبحان اللہ! سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کے حیاء پر قربان جائیے کہ مرنے کے بعد اپنے لاشے کی بابت بھی حیاء کی اس قدر فکر دامن گیرھے اور آپ نے ایک ایسی بات کی بابت فکر کیا جس کی بابت لوگ بہت کم سوچتے تھے۔ یہ بات سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا نے حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں ارشاد فرمائی تھی۔ جب آپ یہ جانتی تھیں کہ داعی اجل کو لبیک کہتے ہی آپ سیدھا اپنے والد ماجد، رسولِ خدا جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا حاضر ہوں گی تو بھلا آپ کو یہ بات کیونکر گوارا ہوسکتی تھی کہ آپ کا جنازہ دن کی روشنی میں مردوں کے آگے آگے چلا جارہا ہوں !!!
سبحان اللہ! اس قدر حیاء!! کیا اس بات کا تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ سیّدہ بتول کے جنازہ کا ایک بال یا ناخن بھی ننگا ہو۔ ہرگز نہیں ! پھر ہرگز نہیں ! کیا یہ ممکن تھا کہ سیّدہ زہراء کا جنازہ کھلے منہ نکلے! واللہ! ہرگز نہیں ! پھر اس سب پر مستزاد یہ کہ جنابِ رسالت مآب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں ۔
لیکن اس سب کے باوجود آپ کے قلب ودماغ میں جو خیال گردش کر رہا تھا۔ وہ تھا ’’حیاء‘‘ بلاشبہ یہ آسمانوں سے بھی بلند عقل تھی جس کو موت کی تلخی نے بھی حیاء نہ بھولنے دیا۔
|