اَلْمَجْدُ یَشْرُفُ فِیْ ثَلَاثِ مَطَالَعٍ
فِیْ مَہْدِ فَاطِمَۃَ فَمَا اَعْلَاہَا
ہِیَ بِنْتُ مَنْ ہِیَ، زَوْجُ مَنْ، ہِیَ اُمُّ مَنْ؟
مَنْ ذَایُد اَنِّیْ فِی الْفَخَارِ اَبَاھَا
ہِیَ وَمْضَۃٌ مِنْ نُوْرِ عَیْنِ الْمُصْطَفٰی
ہَادِی الشُّعُوْبِ اِذَا تَرُوْمُ ہُدَاہَا
’’شرافت اور بزرگی نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تینوں اطراف سے گھیر رکھا ہے اور وہ اس وقت بھی سیّدہ زہراء پر سایہ فگن تھی جب سیّدہ گہوارے میں تھیں ۔ پس سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کیا ہی بلند مرتبہ ہیں ۔ بھلا یہ کس کی بیٹی ہیں ؟ کس کی بیوی ہیں اور کس کی ماں ہیں ؟ کون ہے جو فخر وبڑائی میں ان کے والد کے پاس بھی آسکتا ہو۔ سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا تو جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں کے نور کی ایک چمک ہیں ، وہ نور جو قوموں کو جب وہ ہدایت چاہیں تو ہدایت بخشتا ہے۔‘‘
اے میری مسلمان بہن! کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ مرنے کے بعد سیّدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا کے سراپا حیاء، پیکر شرم بدن کے ساتھ جو کیا جائے اس کا محاسبہ ان سے ہوگا۔ یقینا نہیں ۔ لیکن سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کو اس وقت کی بھی فکر اس حیاء کی بدولت تھی جو ایمان کا ایک شعبہ ہے اور وہی حیاء آپ کی رگ رگ میں اور ریشے ریشے میں پیوست تھا۔ اور یہی حیاء نیک عورتوں کا اصل زیور اور ان کا حقیقی حسن ہوتا ہے۔ اسی لیے آپ نے اپنا یہ غم سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کر دیا آپ کو اندیشہ تھا کہ کہیں مرنے کے بعد آپ کے بدن کے ساتھ بھی ایسا ہی نہ کیا جائے کہ اوپر ایک لمبی چادر ڈال دی جائے۔ سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کا غم دیکھ کر اچانک سیّدہ اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’اے رسول اللہ کی لخت جگر! کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتلاؤں جو میں نے حبشہ میں دیکھی ہے پھر انہوں نے کھجور کی چند گیلی شاخیں منگوائیں ۔ ان کو موڑ کر کمان دار بنایا اور پھر ان پر چادر ڈالی۔‘‘ اور سمجھایا کہ تیرے جنازہ کے ساتھ
|