Maktaba Wahhabi

96 - 378
یوں کیا جائے گا۔ تب ان مڑی شاخوں پر دھری چادر کے نیچے سے بدن کے اعضاء کا وصف ظاہر نہ ہوگا۔ سیّدہ فاطمہ بتول رضی اللہ عنہا یہ منظر دیکھ کر بے حد خوش ہوئیں ۔ اور فرمایا: ’’یہ کیسی عمدہ اور خوبصورت شے ہے کہ اس کے ذریعے مرد اور عورت کے جنازہ میں امتیاز ہو جائے گا۔‘‘ [1] سبحان اللہ! اس طاہر وعفیف اور پاکدامن عورت کا حال بھی بے حد عجیب ہے جو محض اس لیے بے حد خوش ہو رہی ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کے بدن کی ہیئت پر حیاء کی چادر تنی ہوگی۔ کہاں ہیں آج کے فیشن کی وہ دلدادہ خواتین اور جو اشتہارات کی زینت بن کر خوش ہوتی ہیں اور حیاء کو تباہ و برباد کرکے فرحت وسرور میں بدمست ہیں ۔ اللہ ہی ہے! ہم اسی سے مدد کے خواستگار ہیں ۔ پھر سیّدہ بتول بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتی ہیں : ’’جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے صرف تم اور علی غسل دیں ، ان کے سوا کسی اور کو اندر نہ آنے دینا۔‘‘ سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا نے غسل دینے والوں کی تعداد کو محدود کرکے اپنے بے پناہ حیاء اور شرم کا ثبوت دیا۔ پھر سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کی نعش مبارک کو غسل دینے کے بعد ایسا ہی کیا گیا۔ اسلام میں آپ پہلی خاتون تھیں جن کے جنازہ کو یوں ڈھانپا گیا تھا جس کی خبر سیّدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے دی تھی۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد سیّدہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا تشریف لائیں اور اندر جانا چاہا تو انہیں سیّدہ اسماء نے جو ان کی سوتیلی والدہ تھیں اندر جانے سے منع کر دیا۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے واپس جاکر جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے اس بات کی شکایت کی یہ خثعمیہ خاتون میرے اور بنت رسول کے درمیان حائل ہو رہی ہیں
Flag Counter