پاس محفوظ رہے گا۔ بلاشبہ یہ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی زبردست فضیلت منقبت ہے کہ مصحف شریف کے پہلے مرتب نسخہ کی حفاظت وصیانت کے لیے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا انتخاب فرمایا جس کو جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بڑی تندہی اور جانکاہی کے ساتھ دن رات ایک کرکے لوگوں کے مونہوں ، ہڈیوں ، ٹھیکریوں ، چمڑے کے ٹکڑوں اور چھیتڑوں ، پر سے اکٹھا کیا تھا۔ اور اس قدر دقت و مشقت اس لیے اٹھانی پڑی کیونکہ جمع قرآن کے اس نازک وقت میں اکثر قراء وفات پاچکے تھے۔
بہرحال یہ نسخہ تیار ہوگیا اور یہ نہایت قیمتی امانت دورِ عثمانی تک سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہی۔ اور جب اس کی ضرورت پڑی تو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیج کر وہ نسخہ آپ سے منگوا لیا تاکہ اس کو سامنے رکھ کر متعدد اور نسخے تیار کیے جاسکیں ۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے نسخہ لیتے ہوئے آپ کو اس بات کا حلف دیا کہ وہ یہ نسخہ آپ کو لوٹا دیں گے۔ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس پر وہ نسخہ بھیج دیا۔ جب متعدد نسخے تیار کر لیے گئے اور سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے اس مصحف کے ساتھ ان کا مواز نہ کر لیا گیا تو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ آپ کو واپس بھجوا دیا وہ نسخہ پاکر آپ بے حد خوش ہوئیں ۔
اے میرے مسلمان بھائیو اور بہنو! ذرا اس بات کا تصور تو کرو کہ یہ امانت کس قدر قیمتی تھی۔ کہ روئے زمین پر اس وقت قرآنِ کریم کا مکمل، مرتب اور مدون نسخہ صرف اور صرف ایک ہی تھا جو ام المومنین سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ تھا۔ یہ کس قدر عظیم شرف، فضیلت اور منقبت تھی۔ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے اس عظیم امانت کی حفاظت کا حق ادا کیا۔ اور نہایت لطف کی بات یہ ہے کہ اس نسخہ کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ نے ایسی حفاظت کی کہ وہ نسخہ آج تک محفوظ چلا آتا ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گا۔
یہ ہے وہ ذکر جمیل جو قیامت تک ہوتا رہے گا۔ جب جب بھی قرآنِ کریم کی آفاقیت اور ابدیت کا ذکر آئے گا ام المومنین سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی عظمت ومنقبت کا ذکر بھی ساتھ ہوتا رہے گا۔ اور جب بھی دور صدیقی وعثمانی میں جمع قرآن کی یادیں تازہ کی جاتیں رہیں گی
|