Maktaba Wahhabi

79 - 378
انہوں نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ کہا: ’’اے عمر! شاید تم مجھ سے رنجیدہ ہو میں نے اس لیے جواب نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو نکاح میں لینے کا ہے۔ اور ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا مناسب نہ تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح نہ فرماتے تو میں ضرور ان کے ساتھ نکاح کرلیتا۔‘‘[1] یوں رب تعالیٰ نے سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو ام المومنین بننے کا شرف نصیب فرمایا تاکہ آپ براہِ راست انوارِ نبوت سے رشد وہدایت اور علم و عمل کی روشنی حاصل کریں ۔ جس کی برکت سے سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو بارگاہِ الٰہی سے بے پناہ علم و عقل، ذکاوت و فطانت اور عبادت وطاعت کی توفیق نصیب ہوئی۔ جس سے خلیفہ راشد امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھی ٹھنڈی ہوئیں ۔ جب کہ خود سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی خوشی کی تو کوئی انتہا نہ تھی۔ اب سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظروں میں جنابِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی عزت و توقیر پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی تھی کیونکہ اب ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصاہرت کا رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ یہ رشتہ واری قائم کرکے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بے پناہ عزت دی، اور خود سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے غموں کا ازالہ فرمایا، ان کی ہجرت اور صبر کا اکرام فرمایا جو ان کے مجاہد، مہاجر اور شہید شوہر کے اکرام و اعزاز کو بھی شامل تھا۔ راجح قول کے مطابق یہ نکاح ۳ ھ میں چار سو درہم مہر پر ہوا۔ سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا اس وقت بیس سال کی تھیں ۔ کیا کسی عورت کے لیے اس سے بڑھ کر بھی کوئی شرف اور اعزاز ہو سکتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں داخل ہوکر پوری امت کی قیامت تک کے لیے ماں بن جائے اور اب اسے آلِ بیت رسول میں شمار کیا جاتا ہو۔ ام المومنین زوجۂ رسول سیّدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی قدرو منزلت اور مقبولیت و محبوبیت کا اندازہ کرنے کے لیے یہی ایک واقعہ کافی ہے کہ کسی موقعہ پر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک طلاق دے دی۔ اس پر آپ خود
Flag Counter