Maktaba Wahhabi

72 - 378
اَللّٰہُمَّ اجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا، (ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اے اللہ! تو مجھے میری اس مصیبت میں اجر سے نوازے اور (میرا جو نقصان ہو گیا ہے) مجھے اس کا بہترین بدل عطا فرما)۔‘‘ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بھی ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ انہیں داغِ فراق دے گئے۔ تو سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آزمائش اور دکھ کی اس سخت ترین گھڑی میں بھی رب تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتے ہوئے بے حد صبر واستقامت کے ساتھ یہ دعا پڑھی اور بار بار پڑھی۔ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوگیا۔ تو میں نے اپنے جی میں سوچا کہ بھلا ابو سلمہ سے اچھا کوئی مسلمان اور کون ہوسکتا ہے (جو اللہ مجھے اس مصیبت کے بدلے میں عطا فرمائے اور میں اس کے ساتھ دوسری شادی کرلوں ) وہ سب سے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے گھر بار سمیت جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی۔ (اور یہ وہ فضیلت تھی جس میں ان کا کوئی شریک وسہیم نہیں تھا)۔ پھر (مجھے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت یاد آئی تو) میں نے (اس حادثۂ جانکاہ پر) یہ دعا پڑھی تو رب تعالیٰ نے مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے بدلے (ان سے کہیں بہتر) جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرمائے (اور مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف نصیب ہوا)۔[1] طبعی بات ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کا دوسرے مسلمانوں کو بھی بے حد صدمہ تھا۔ پھر سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی ننھی اولاد دیکھ کر اہل ایمان اور بھی زیادہ غم زدہ ہو جاتے تھے۔ اب مہاجرین اور انصار دونوں یہ سمجھتے تھے کہ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا ان پر حق ہے کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان کی خبر گیری اور کفالت کا کوئی مستقل انتظام کیا جائے۔ چنانچہ جیسے ہی سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی عدت پوری ہوئی جنابِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہا نے آپ کو نکاح کا پیغام بھیجا تاکہ ایک تو آپ کا غم ہلکا ہو، دوسرے آپ کے اور آپ کے بچوں کے اخراجات اور ضروریات کا
Flag Counter