میں بھر پور حصہ لیا اور بہادری کے زبردست جوہر دکھائے اور سب سے دادِ شجاعت لی۔ اہل ایمان فتح کے پھریرے لہراتے مدینہ منورہ واپس ہوئے۔ جنگ بدر کے تذکروں کا جوش ابھی ٹھنڈا نہ پڑا تھا کہ گردشِ میل و نہار نے وقت کی بساط کو سرعت کے ساتھ لپیٹتے ہوئے اہل ایمان کو جنگ احد کے دروازے پر لاکھڑا کیا۔
ابو سلمہ رضی اللہ عنہا جنگ احد میں بھی بڑی بے جگری و جاں بازی سے اور شوقِ شہادت سے سرشاد ہوکر شریک ہوئے۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہا کی تلوار دشمنوں کے سینوں سے روح اور پیروں تلے سے زمین کھینچتی رہی۔ ابو سلمہ رضی اللہ عنہا نے جنگ احد میں جنگ بدر کی شجاعت کی یاد تازہ کر دی۔ البتہ اس جنگ میں ابو سلمہ رضی اللہ عنہا کو بازو پر گہرا زخم آیا۔ ایک ماہ تک علاج معالجہ کرنے سے وہ زخم تقریباً مندمل ہوگیا۔ یہ دیکھ کر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے غرہ محرم الحرام ۴ ھ میں انہیں بنو اسد کے خلاف ایک سریہ کا امیر بنا کر روانہ کیا۔ ۲۹ روز بعد واپس ہوئی۔ واپسی پر پرانا زخم پھر تازہ ہوگیا اور شدید تکلیف دینے لگا، اس زخم نے سیّدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو صاحب فراش کرکے رکھ دیا۔ اور اسی زخم کی تاب نہ لاتے ہوئے ۸ جمادی الاخری ۴ ہجری میں جان جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے رب تعالیٰ کی جوارِ رحمت میں جا بسے۔
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزمائشوں کے سلسلہ کی یہ سب سے سخت کڑی تھی۔ لیکن سیدہ رضی اللہ عنہا کی زبان پر ان سب مصائب و حوادث کے مقابلے میں صرف وہی ورد تھا جو انہوں نے زبانِ رسالت صداقت بیان سے سن رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیْبُہُ مُصِیْبَۃٌ فَیَقُوْلُ مَا اَمَرَہُ اللّٰہُ: اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ اجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا، اِلاَّ اَخْلَفَ اللّٰہُ لَہُ خَیْرًا مِنْھَا…))
’’جس مومن پر بھی کوئی مصیبت آئے (یا اس کو جان ومال میں کوئی نقصان پہنچے) اور اس وقت زبان سے وہ وہی کچھ کہے جس کا اس کے پروردگار نے اسے حکم دے رکھا ہے (یعنی وہ یہ دعا پڑھے) اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،
|