Maktaba Wahhabi

70 - 378
لمحات کو یاد کر کر کے آہیں بھرتیں جب وہ اپنے خاوند اور بچے کے ساتھ نہایت خوشی کی زندگی گزار رہی تھیں ۔ اور جب سائے ڈھلنے لگتے اور رات کے اندھیرے اپنے پردے گرانے لگتے تو گھر لوٹ آتیں ۔ یوں کئی دن گزر گئے۔ ایک دن آپ کے خاندان کے ایک شخص نے آپ کو یوں بے قراری سے روتے دیکھا تو اسے آپ پر بے حد ترس آیا اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: ’’تمہیں اس بے چاری پر رحم نہیں آتا۔ اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ کیوں اسے اس کے خاوند اور بچے سے جدا کر رکھا ہے۔‘‘ غرض وہ صاحب اپنی قوم کے لوگوں سے رحم کی اپیل کرتے رہے اور ان کے دلوں کو نرماتے رہے حتی کہ انہیں بھی سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر ترس آگیا اور آپ کو آپ کے شوہر کے پاس مدینہ منورہ جانے کی اجازت دے دی۔ اور یہ کہا: ’’اگر تم اپنے خاوند کے پاس جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔‘‘ اس پر سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا: ’’میں اپنے لخت جگر کو چھوڑ کر خاوند کے پاس کیسے چلی جاؤں جو مکہ میں بنو عبدالاسد کے پاس ہے۔‘‘ یہ سن کر لوگوں کو آپ کے غم و اندوہ کا اندازہ ہوا۔ چنانچہ چند لوگوں نے آگے بڑھ کر بنو عبدالاسد سے بات کی۔ انہیں بھی ترس آگیا اور سلمہ کو آپ کے حوالے کر دیا۔ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اپنے بچہ کو لے کر اونٹ پر سوار ہوئیں اور مدینہ کے ارادہ سے تنہا ہی نکل پڑیں ۔ اور بالآخر مدینہ پہنچ گئیں ۔ جہاں خاوند کو دیکھ کر آپ کے کلیجے کو ٹھنڈ پڑی۔ سیّدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بھی اپنی اہلیہ اور بچے کے سلامت با کرامت مدینہ پہنچ جانے پر بے حد مسرور ہوئے۔ اب آپ مدینہ منورہ میں چین سے رہنے لگیں ۔ اس دوران رب تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹیاں اور ایک بیٹا بھی عنایت فرمایا۔ [1] یاد رہے کہ اکثر مورخین اور سیرت نگاروں کے نزدیک سب سے پہلے ہجرت کرنے والی خاتون سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ۔ اس کی تائید مسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ پھر وقت پلک جھپکنے میں گزر گیا اور حالات و واقعات نے نئی کروٹ لی اور جنگ بدر سر پر آن پہنچی۔ دوسرے مجاہدوں کی طرح ابو سلمہ نے بھی اس جنگ
Flag Counter