آئیں ۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبریں غلط تھیں اور قریش مکہ تو مسلمانوں پر پہلے سے بھی کہیں زیادہ مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔ غرض مکہ کے حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب تھے اور ان حالات نے مکہ رہنے نہ دیا۔ مسلمانوں کی شدید تکلیف دیکھ کر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کی اجازت دے دی۔ یہ خبر پاتے ہی سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے خاوند نے اس بات کا پختہ ارادہ کر لیا کہ مدینہ کی طرف بھی اپنا دین بچانے اور کفار اشرار کے ظلم و ستم سے نجات پانے کے لیے سب سے پہلے ہجرت وہی کریں گے۔ مگر اب کی بار یہ آسان نہ تھا بلکہ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ہجرت غم و اندوہ کی ایک المناک داستان بن گئی۔ جس کا قصہ یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کی قوم بنی مخزوم نے آپ کے اور آپ کے خاوند کے مدینہ ہجرت کر جانے کے ارادے کی خبر سنی تو اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کو ہجرت کرنے سے منع کر دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر آپ کے خاوند سیّدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اللہ کے لیے اکیلے ہی ہجرت کے لیے چل پڑے۔ بنی مخزوم کو انہیں تو روکنے کی ہمت نہ ہوئی البتہ انہوں نے آپ کو روک لیا۔ اس موقعہ پر دوسرا جگر پاش قصہ یہ پیش آیا کہ جب سیّدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی قوم بنو عبدالاسد نے انہیں ہجرت کرتے دیکھا تو آگے بڑھ کر سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ان کا بچہ ’’سلمہ‘‘ یہ کہہ کر چھین لیا کہ یہ ہمارے خاندان کا بچہ ہے ۔
یوں ام المومنین سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مختصر سے خاندان کا بھی شیرازہ بکھر گیا کہ خاوند اللہ کے لیے مدینہ جابسے ان کے خاندان کے لوگ بنو مغیرہ یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے آئے کہ اے ابو سلمہ! تم جہاں چاہو جاؤ تمہیں اختیار ہے لیکن ہم اپنی بیٹی کو در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے تمہارے ساتھ نہ جانے دیں گے۔ جب کہ آپ کا بچہ بنو عبدالاسد یہ کہہ کر ساتھ لے گئے کہ ’’سلمہ‘‘ ہمارے خاندان کا بچہ ہے، اسے ہم تو لوگوں کے پاس نہ چھوڑیں گے۔
یہ صورتِ حال سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے لیے نہایت تکلیف دہ اور آزمائش والی تھی کہ خود کہیں ، خاوند کہیں اور بچہ کہیں ۔ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اس مصیبت میں مبتلا روزانہ مکہ سے نکل کر دن بھر مقامِ ابطح جا بیٹھتیں اور اپنے شوہر اور بچے کے غم میں روتی رہتیں ۔ اور خوشی کے ان
|