انتظام ہو۔ لیکن آپ نے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر جنابِ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر نکاح کا پیغام بھیجا۔ آپ نے اسے بھی قبول نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ سیّدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ (اور بعض روایات کے مطابق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے آئے۔
سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو قبول کرنے میں مجھے تین عذر ہیں :
۱۔ میری اولاد ہے جن کی مجھے خبر گیری کرنی ہوتی ہے۔
۲۔ میں بے حد غیرت مندہوں اور میری یہ حد سے بڑھی غیرت جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث بنے گی۔
۳۔اور تیسرے یہ کہ میں عمر رسیّدہ ہوں ۔
مطلب یہ تھا کہ شاید ان اعذار کی بنا پر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو جائے (جو دنیا و آخرت میں باعث خسران ونقصان ہے)۔ اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ میرا کوئی ولی مدینہ میں نہیں ۔
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اعذار کو سن کر کیسے شفیقانہ جوابات مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رہی ان کی بیٹی (اور اولاد) تو ہم اللہ سے دعا کریں گے کہ اللہ انہیں ان سے مستغنی کردے (اور بعض روایات میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ رہی ان کی اولاد تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے ذمے ہے)۔ اور جہاں تک ان کی حد سے بڑھی غیرت کا مسئلہ ہے تو میں اللہ سے دعا کروں گا۔ اللہ اس کو دور فرما دے گا۔ رہا درازیٔ عمر کا مسئلہ تو میری عمر ان سے زیادہ ہے اور ان کا کوئی بھی ولی اس رشتہ کو ناپسند نہیں کرے گا۔ [1]
یوں جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا مخزومیہ کے درمیان یہ مبارک شادی طے پاگئی اور آپ نے جو دعا مانگی تھی، اگرچہ اس وقت ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ یہ دعا اس انداز سے قبول ہوگی، وہ رنگ لے آئی۔ جیسا کہ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا خود فرماتی ہیں کہ
|