Maktaba Wahhabi

64 - 378
دوسرا راوی حدیث شریک و سہیم نہیں ۔ وہ یہ کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو احادیث روایت کی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کی سنن فعلیہ، عائلی زندگی، خانگی احوال اور ان خاص امور سے ہے جن پر سوائے ازواجِ مطہرات کے اور کوئی مطلع ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن میں یہاں ایک بات اور کہوں گا۔ وہ یہ کہ کیا کوئی انسان یہ گمان کر سکتا ہے کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ مقام ومرتبہ محض علمی برتری و فوقیت اور خدا داد صلاحیت کی بنا پر ہی ملا تھا؟ نہیں بلکہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا عمل ان کے علم پر سابق و خائق تھا۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہر برخوردار، امت مسلمہ کا ہر جوان آپ کی پاکیزہ سیرت پڑھ کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ کس طرح ثابت قدمی، پختہ ہمتی اور صبر وثبات کے ساتھ آپ نے امت مسلمہ کی تربیت کی۔ رب تعالیٰ کی عبادت کرنے، اور اس کے حضور کھڑے ہونے کا شوق دیدنی تھا۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شوقِ عبادت کا اندازہ کچھ انہیں لوگوں کی شہادت سے لگایا جاسکتا ہے جنہوں نے والہیت وفریفتگی کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ چنانچہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں : میں صبح کے وقت سب سے پہلے پھوپھو جان سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر جایا کرتا تھا اور آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا کرتا تھا۔ اسی طرح ایک دن میں حسب معمول پھوپھو جان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آپ نماز میں کھڑی تسبیح کر رہی ہیں اور یہ آیت پڑھ رہی ہیں ۔ ﴿ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ ﴿٢٧﴾ إِنَّا كُنَّا مِن قَبْلُ نَدْعُوهُ ۖ إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِيمُ﴾ (الطور: ۲۷،۲۸) ’’تو اللہ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں لو کے عذاب سے بچا لیا۔ اس سے پہلے ہم اس سے دعائیں کیا کرتے تھے۔ بے شک وہ احسان کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
Flag Counter