﴿ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَىٰ وَأَمَرُّ﴾ (القمر: ۴۶)
’’بلکہ ان کے وعدے کا وقت تو قیامت ہے اور قیامت بڑی سخت اور تلخ ہے۔‘‘
تو میں اس وقت کھیلنے والی ایک بچی تھی۔ اور سورۂ بقرہ اور سورۃ نساء جب نازل ہوئی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔[1]
سیّدہ عائشہ صدیقہ نزول وحی کا بھی مشاہدہ فرماتی تھیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((وَاللّٰہِ مَا نَزَلَ عَلَیَّ الْوَحْیُ وَاَنَا فِیْ لِحَافِ امْرَأَۃٍ مِنْکُنَّ غَیْرَھَا)) [2]
’’اللہ کی قسم! مجھ پر اس حال میں کبھی وحی نازل نہیں ہوئی کہ میں تم میں سے کسی بیوی کے لحاف میں (اس کے ساتھ) ہوں سوائے عائشہ کے۔‘‘
سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآنِ کریم کے معانی دریافت کرتیں اور بعض آیات کے اشارات کی بابت بھی معلوم کرتیں اس طرح سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وحی نازل ہونے کے بعد فوراً قرآن کریم کو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا۔ اور الفاظ کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کے معانی بھی خود جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فصاحت و بلاغت، بیان کی بلندی اور لغت عربیہ کے علم پر کامل دستگاہ رکھتی تھیں ۔
اگر روایت حدیث کو دیکھا جائے تو سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار اکابر حفاظِ حدیث صحابہ میں ہوتا ہے۔ اور آپ نے حدیث کی حفظ وروایت میں پانچواں درجہ پایا۔ چنانچہ حضرات محدثین کا یہ متفقہ قول ہے کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ، سیّدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بعد پانچویں درجہ میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو روایت حدیث میں ایک خاص امتیاز حاصل ہے جس میں کوئی
|