دیا کرتی تھیں ۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علم ومعرفت کے ساتھ بے حد محبت اور مشغف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو کسی بات کا علم نہ ہوتا یا کسی مسئلہ کا سمجھنا آپ پر دشوار ہوتا تو آپ وہ بات بلا تردد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرما لیتی تھیں ۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
((مَنْ حُوْسِبَ عُذِّبَ))
’’جس کا محاسبہ ہونے لگا وہ ضرور گرفتارِ عذاب ہوگا۔‘‘
سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے (یہ ارشاد سن کر) عرض کیا: کیا اللہ یہ نہیں فرماتے:
﴿ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا﴾ (الانشقاق: ۸)
’’اس سے حساب آسان لیا جائے گا۔‘‘
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس آیت میں حساب کے لیے پیش ہونے کا ذکر ہے (ناکہ محاسبہ کیے جانے کا) البتہ جس سے حساب کتاب شروع ہوگیا وہ ہلاک ہوگیا۔ [1]
جب ہم سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے تفسیر قرآن کی بابت عظیم کردار کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت الم نشرح ہوکر آتی ہے کہ آپ نے اپنے عظیم باپ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فہم و فراست اور مقامِ صدیقیت سے خاص حصہ پایا تھا۔ اور نہایت کم سنی میں تفسیر کے علم میں بے حد پختہ ہو گئیں ۔ کیونکہ بچپن سے آپ نے اپنے والد ماجد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے منہ سے قرآنی علوم سنے اور سیکھے۔ لوحِ قلب بالکل پاک صاف تھی اور ابھی ا س پر کوئی باطل نقش کھنچنے نہ پایا تھا۔ اسی معصوم زمانہ میں آپ نے اپنے نیک والدین کے منہ سے صرف قرآن کے تذکرے سنے تھے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیوں کہ ازواج مطہرات میں یہ خاص وصف اور شرف صرف آپ کو ہی حاصل تھا کہ آپ کے والدین آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ایمان قبول کر چکے تھے۔ اسی لیے ہم سیّدہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنتے ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔
|