Maktaba Wahhabi

46 - 378
پناہ مانگتا ہوں تیرے چہرے کے اس نور کے واسطے سے جس سے سب اندھیرے روشن ہوگئے اور اسی نور کے طفیل دنیا و آخرت کا کار خانہ چل رہا ہے۔ (میں پناہ مانگتا ہوں ) اس بات سے کہ تیرا غضب اور ناراضگی مجھ پر اترے اور اصل مقصود تجھ ہی کو سنانا ہے اور تجھے راضی کرنا ہے۔ بندہ میں کسی شر سے پھرنے اور خیر کے کرنے کی قدرت نہیں مگر جتنی تیری بارگاہ سے عطا کی جائے۔‘‘ پھر چشم فلک نے دیکھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب خیرات وبرکات حاصل ہوئیں ۔ تو کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ توحید سے رک گئے؟ ہرگز نہیں ! بلکہ توحید کی دعوت تو ہمیشہ سے عظیم داعیانِ ایمان و توحید کی زندگیوں کا فرضِ منصبی اور کارہائے نمایاں رہا ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ توحید کے رستے کی ہر تنگی، سختی، تلخی، شدت، دقت، تکلیف اور مصیبت کو کھلے دل کے ساتھ چکھا اور جھیلا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ تیرہ سالہ طویل زمانہ میں جو ہر طرح کے مصائب ومصاعب سے معمور تھا، نہ کبھی جی بھر کے سوئے اور نہ کبھی پورا آرام کیا، ایک انتھک محنت تھی جس میں راحت و آرام کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر اسلام کو اپنے خون اور آنسوؤں سے سینچا، ساری دولت اس پر لٹا دی۔ شب و روز اس کے نام کر دئیے، اور نہ کبھی اکتائے، نہ سستائے اور نہ کبھی رکے اور نہ گھبرائے، یہاں تک کہ دین کو اس کی بنیادوں پر کھڑا کر دیا، اور پورے جزیرۂ عرب میں توحید کے نعرے گونجنے لگے۔ اور ہر جگہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا پرچم بلند ہوا۔ میرے بے حد قابل احترام بھائیو! نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ ترین شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ’’مشاہیر‘‘ کی صف میں اوّل جگہ دے کر کھڑا کر دیا جاتا ہے جن کی تاریخ ظلم و سفاکی، بہیمیت و بربریت، جبرو استبداد، قہرو غضب اور خونریری و خون آشامی کے تیرہ و تاریک پردوں میں لپٹی ہے۔ کیا ہمارے سراپا عدل و رحمت، شفقت اور افت، نرمی وملاطفت رسولِ برحق کا یہی احترام ہے کہ دل کو تسلی دینے کی خاطر اوّل جگہ دے کر ایسے نا معقول اور نالائق لوگوں کو
Flag Counter