اے مسلمانو! ہمارے شب بیدار اور روزہ دار کہاں ہیں ؟ علی، فاطمہ، حفصہ، عائشہ زید اور زین العابدین جیسے لوگ کہاں ہیں ؟ بہادر چل بسے اور بزدل رہ گئے۔ سردار رہے اور تکیوں پر ٹیک لگانے والے رہ گئے۔
نَزَلُوْا بِمَکَّۃَ فِیْ قَبَائِلِ ہَاشِمٍ
وَنَزَلَتْ بِالْبَیْدَائِ اَبْعَدَ مَنْزِلٍ
’’وہ مکہ کے ہاشمی قبائل میں اترے اور میں ان کے ٹھکانوں سے دور بیداء میں جا اترا۔‘‘
یہ عظیم لوگ گزر گئے جو دین کے حامی وناصر تھے۔ اسلام کے شیوخ اور اہل بیت کرام کے عظماء دنیا میں نہ رہے۔ دین کے خدام دنیا سے منہ موڑ گئے۔ اب ہم باقی ہیں سوال یہ ہے کہ اہم اللہ اور اس کے دین کے لیے سب سے پہلے کیا کریں ؟ پھر اپنے اور مسلمانوں کے لیے کیا کریں ؟ کیا ہم اصحابِ رسول کی پیروی کریں اور دین کی محبت میں فنا ہو جائیں ؟
یاد رہے کہ اس دین کی اصلاح اس امر سے ہوئی جس سے اس کی اصلاح اوّل میں ہوئی۔ وہ ہے قول و فعل میں صداقت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی، خواہشاتِ نفس سے دوری اور اکابر امت کے نقش قدم کی پیروی یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن اترتے دیکھا تاویل کو جانا۔ ان لوگوں نے نمازوں کے اوقات کا مشاہدہ کیا۔ ان کی نیتیں خالص تھیں ان کے عمل نیک تھے۔ انہوں نے خواہشات کو مار دیا تھا۔ ان کا سب سے بڑا مشغلہ رب کی رضا حاصل کرنا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا تھا۔ کہ یہ سب سے اہم معاملہ تھا۔ یہ لوگ دلیل کے ساتھ تھے سیدھے رستے پر تھے۔ حجت تھامے ہوئے تھے ان لوگوں نے تصنع اور بناوٹ سب ترک کر دیا تھا۔ تکلف پھینک مارا۔ غلو زمین پر ڈال دیا۔ سادہ اور بے لوث تھے۔ قیل و قال سے دور، بس امت کی اصلاح کی فکر تھی۔ لہو ولعب سے نفور تھے علم کی امانت کے حامل تھے۔ انسانیت کی نجات کا مقصد لے کر اٹھے تھے۔ عبادت کا حق ادا کیا۔ تو بڑے بڑے جابر ان کے آگے جھک گئے۔
|