٭ آلِ بیت نبوی علم اور حفظ قرآن پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ اس کے بعد روایت حدیث اور فقہ ان کے فکر و نظر کی جولان گاہ تھے۔ یہی اکثر اہل بیت کی سیرت کا غالب پہلو تھا۔ جیسا کہ گزشتہ اوراق میں بالتفصیل ذکر کر دیا گیا ہے۔
٭ آل بیت صرف زبانی کلامی خطبوں اور وعظوں پر اکتفاء نہ کرتے تھے۔ بلکہ زہد و عبادت، جہاد و فروسیت، صیام و قیام، انفاق وسخاوت لوگوں کی حوائج پوری کرنے اور ہر خیر کی طرف لپکنے میں بے حد محنت اور مجاہدہ کرتے تھے۔ یہی باتیں انسان کو عظیم بناتی ہیں اور عنداللہ قبولیت کا ذریعہ ہیں ان باتوں کا ذکر کئی جلدوں میں بھی نہیں سما سکتا۔
٭ نسب رسالت کی شرافت، شرافت ایمان کے تابع ہے لہٰذا اہل بیت میں سے جو ایمان سے محروم رہا اسے یہ نسب کسی کام نہ آسکا۔ اللہ کا بھی ارشاد ہے کہ اس کے نزدیک زیادہ عظمت والا وہی ہے جو زیادہ متقی ہوتا ہے۔ لہٰذا عظمت صرف نسب سے نہیں ملتی۔ نہ کسی کام آتی ہے۔ لہٰذا اہل بیت میں سے بھی جو کافر تھا ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کے کفر کی بنا پر اس سے بغض رکھیں کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا تھا۔
اس لیے جسے رب نے اس شرف سے نوازا ہے وہ اسی پر بھروسہ اور تکیہ کرکے عمل چھوڑ کر نہ بیٹھ رہے۔ بلکہ نیکیوں کی طرف تیزی سے لپکے۔ اور جسے یہ شرف نہیں ملا وہ رب سے اس توفیق کا سوال کرے کہ وہ آلِ بیت رسول سے محبت کرے اور وہ عمل صالح کی توفیق مانگے۔ کہ رب کی میزان یہی عمل صالح ہے۔ وہ آلِ بیت سے محبت واحترام کرے کہ آدمی انہیں کے ساتھ ہوگا۔ جن سے اسے محبت ہوگی۔
٭ اہل بیت کے بارے میں صحیح عقیدہ رکھا جائے۔ ہم سب بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب اور ازواجِ مطہرات سے محبت کریں ان کو ان کا مرتبہ دیں ۔ ان کے بارے میں عدل انصاف سے کام لیں ۔ غلو اور تفریط سے بچیں ۔
٭ اے اللہ! ہمیں پہلوں کے سے اخلاق نصیب فرما، اپنے رستے کی شہادت سے دلوں کو سرور بخش اور اسلام کے جھنڈے تلے اور دین کی نصرت و حمایت میں موت دے۔
|