اپنے نفس کی حفاظت نہیں کی اس کا علم نافع نہیں ۔‘‘ [1] کس قدر حکمت وبلاغت کے باتیں ہیں ۔ آپ کے اشعار ہیں :
نُعِیْبُ زَمَانِنَا وَالْعَیْبُ فِیْنَا
وَمَا لِزَمِانِنَا عَیْبٌ سِوَانَا
وَنَہْجُوْ ذَا الزَّمَانِ بِغَیْرِ ذَنْبٍ
وَلَوْ نَطَقَ الزَّمَانُ لَنَا ہَجَانَا
وَلَیْسَ الذِّئْبُ یَاْکُلُ لَحْمَ ذِئْبٍ
وَیَأْکُلُ بَعْضُنَا بَعْضًا عَیَانَا
’’ہم زمانے کو عیب دیتے ہیں حالانکہ عیب ہم میں ہے اور ہمارے زمانے میں سوائے ہمارے کوئی عیب نہیں ۔ ہم بلاوجہ اہل زمانہ کی ہجو کرتے ہیں اگر زمانے کی زبان ہوتی تو وہ بھی ہماری ہجو کرتا۔ بھیڑ یا درندہ ہوکر بھی بھیڑیے کا گوشت نہیں کھاتا جب کہ ہم دیکھتی آنکھوں ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں ۔‘‘
ابوبکر سبائی کہتے ہیں : ’’میں نے بعض مشائخ کو یہ بیان کرتے سنا ہے کہ کسی نے امام شافعی کو اہل بیت کی طرف بے حد مائل ہونے کی بنا پر طعن کیا۔ آپ کی اہل بیت کے ساتھ شدتِ محبت کی بنا پر آپ کو رافضی تک کہہ دیا۔ اس کے جواب میں آپ نے یہ اشعار پڑھے:
قِفْ بِالْمِحْصَبِ مِنْ مِنٰی فَاہْتِفْ بِہَا
وَاہْتِفْ بِقَاعِدِ خَیْفِھَا وَالنَّاہِنِ
اِنْ کَانَ رَفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْیَشْہَدِ الثَّقْلَانِ اِنِّی رَافَضِ
’’تو وادیٔ منیٰ میں کھڑے ہوکر مقام محصب سے خیف کے نشیب و فراز میں پکار
|