مدینہ میں جاکر امام مالک سے کسب فیض کیا۔ ان سے فقہ سیکھنے کے بعد یمن کا سفر اختیار کیا۔ وہ عہدۂ قضا پر متمکن ہوئے۔ ۱۸۱ھ میں عراق کے لیے عازم سفر ہوئے۔ ان سے ان کے علوم سیکھے اور انہیں حجازی علم سے مستفید کیا۔
امام محمد شیبانی امام ابو حنیفہ کے ساتھی کے بارے میں سنا تو ان کے پاس جا پہنچے۔ امام ابو حنیفہ کا علم اور فقہ سیکھی۔ متعدد مسائل میں ان سے مناظرہ بھی کیا۔ پھر مصر جا پہنچے، وہاں کے علماء سے ملے، علم لیا بھی اور دیا بھی۔ ۱۹۵ھ میں امین کی خلافت میں پھر بغداد چلے آئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جس میں آپ امام بنے اور مستقل مذہب و فقہ کی بنیاد رکھی۔ دو سال تک عراق میں ہی رہے اور ’’الحجۃ‘‘ کی تالیف سے فارغ ہوکر حجاز چلے آئے۔ پھر مسلسل سفروں میں رہے اور ۱۹۹ھ میں مصر جا پہنچے۔
مصریوں میں خوب گھلے ملے لیث بن سعد کے اصحاب اور فقہائے مصر سے نشستیں رہیں ۔ متعدد مسائل میں مناظروں کے بعد آپ نے ’’الحج‘‘ میں مدوّن اپنے قدیم مذہب میں نظر ثانی کی اور متعدد مقامات میں تبدیلیوں کے بعد اپنا جدید مذہب مدوّن کیا۔ امام شافعی نے متعدد کتابیں لکھیں ، علم مدون کیا اور آئمہ پر رد بھی کیا۔ فقہ کے اصول و فروع تصنیف کیے۔ آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ طلباء کا ازدمام ہوگیا۔ یہ آپ کا امتیاز وصف ہے کہ آپ نے اپنے مذہب کو تنہا مدون کیا۔ علم اصول فقہ میں بھی سب سے پہلے آپ نے لکھا۔ جیسا کہ آپ کی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ آپ نے ’’الرسالۃ‘‘ کو مکہ میں تالیف کرکے اسے عبدالرحمن بن مہدی کے پاس بھیجا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کی سیرت قربانیوں ، علم کی خاطر در در کی خاک چھاننے اور شہر شہر پھرنے سے تعبیر ہے۔ آپ کے بارے میں مزنی فرماتے ہیں : ’’میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو یہ فرماتے سنا ہے۔‘‘ جس نے قرآن سیکھا اس کی شان بلند ہوگی۔ جس نے فقہ کلام کیا اس کا رتبہ اونچا ہوگا۔ جس نے حدیث لکھی اس کی حجت قوی ہوگی۔ جس نے لغت میں نظر کی اس کی طبیعت میں نرمی آئے گی۔ جس نے حساب میں غور کیا اس کی رائے پختہ ہوگی۔ جس نے
|