Maktaba Wahhabi

262 - 378
نسب پر بے حد فخر تھا۔ چنانچہ ہارون الرشید جب سفر حج کے دوران مدینہ آیا تو قبر مبارک کی زیارت کے لیے بھی آیا اور یہ کہہ کر سلام پیش کیا، اے اللہ کے رسول! آپ پر سلام اے میرے چچا زاد کیونکہ ہارون الرشید سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھا۔ یہ کہہ کر دراصل اس نے آس پاس کے لوگوں پر اپنی برتری جتلائی تھی۔ پاس ہی جناب موسیٰ کاظم بھی بیٹھے تھے۔ یہ سن کر آگے بڑھے اور ان الفاظ کے ساتھ سلام پیش کیا: ’’اے میرے باپ! تجھ پر سلام۔‘‘ یہ سنتے ہی ہارون الرشید بے حد شرمندہ ہوا۔ بھلا اس فخر کے سامنے اور کیا فخر ہوسکتا ہے۔ اللہ اکبر! [1] افسوس کہ اس قدر جلیل القدر امام کو بھی قیدو بند کی صعوبتیں سہنی پڑیں ۔ کیونکہ عباس خلفاء تک آپ کی چغلیاں لگائی گئیں ۔ کہ لوگ آپ کی بیعت کر رہے ہیں ۔ آپ دولت عباسیہ کے خلاف خروج کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ حالانکہ آپ ان الزامات سے بری تھے۔ لیکن آپ کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا۔عمار بن ابان کہتے ہیں : موسیٰ کاظم کو سندی بن شاہک کے پاس قید میں رکھا گیا۔ ابن شاہک کی بہن نے آپ کی خدمت کی اجازت مانگی جو مل گئی۔ یہ خاتون آپ کے عجیب و غریب احوال نقل کرتی ہے۔ کہ: ’’موسیٰ کاظم عشا پڑھ کر رب تعالیٰ کی حمد ومجد اور دعا میں لگ جاتے حتی کہ رات ختم ہو جاتی۔ تب اٹھ کر فجر پڑھتے۔ اور طلوعِ آفتاب تک ذکر میں مشغول رہتے۔ پھر آفتاب چڑھنے کے انتظار میں بیٹھے رہتے۔ پھر اٹھ کر مسواک کرکے تناول فرماتے اور زوال تک سو رہتے پھر اٹھ کر ظہر، عصر اور مغرب کی نمازیں پڑھتے اور درمیانی اوقات میں ذکر کرتے رہتے۔ مغرب کے بعد عشا تک نوافل پڑھتے تھے۔‘‘ یہ خاتون ان تمام مناظر سے بے حد متاثر ہوئی اور یہ کہا: ’’جن لوگوں نے ان سے تعرض کیا ہے وہ خسارے میں ہیں ۔‘‘ [2]
Flag Counter