نہیں ہوا۔ یہ سن کر وہ آدمی اس عظیم شخص کو حیرت سے تکنے لگا۔ پھر اٹھ کر آپ کے ماتھے کو بوسہ دیا اور کہنے لگا۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔ اب یہ آدمی ہر وقت آپ کے لیے دعا کرتا تھا۔ پھر آپ نے اپنے خواص سے جو اسے قتل کرنا چاہتے تھے یہ پوچھا، کون سی بات بہتر تھی۔ وہ جو تم چاہتے تھے یا جو میں نے کیا کہ اس کی اصلاح کر دی؟
سبحان اللہ! علامہ ذہبی اس واقعہ پر یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’اگر یہ قصہ ثابت ہے تو یہ بے پناہ علم و سماحت کی دلیل ہے۔‘‘ [1]
سیر اعلام النبلاء میں یحییٰ بن حسن بن عبیداللہ سے روایت ہے: ’’موسیٰ کاظم عبد صالح اور عبادت گزار معروف تھے۔‘‘
علامہ ذہبی رحمہ اللہ یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ: ’’ہمارے اصحاب نے روایت کیا ہے کہ موسیٰ کاظم نے رات کے پہلے پہر میں مسجد نبوی میں داخل ہوکر سجدہ کیا۔ لوگوں نے سنا کہ آپ سجدہ میں یہ دعا مانگ رہے تھے۔
’’میرے گناہ بے حد زیادہ ہوگئے۔ اے معاف کرنے والے تیرے سے معاف کرنا بے حد اچھا ہے۔‘‘ اور صبح تک یہی دعا دہراتے رہے۔ [2] آپ بنی ہاشم کے سردار، اپنے زمانے کے سب سے عبادت گزار اور بڑے عالم تھے۔ ابواء (مدینہ کے قریب ایک بستی) میں پیدا ہوئے اور مدینہ میں سکونت اختیار کرلی۔
آپ نے ہر طرف سے مجد و فضیلت کو اپنی ذات میں جمع کیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے والد ماجد جعفر صادق، عبداللہ بن دینار، اور عبداللہ بن قدامہ جیسے لوگوں سے حدیث روایت کی۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں آپ کی مرویات مذکور ہیں ۔ علمی فضیلت اکٹھی کرنے کے بعد تقویٰ و ورع کو بھی اکٹھا کیا چنانچہ شب بیدار، روزہ دار، گریہ کے عادی اور ربِ قہار سے ڈرنے والے تھے۔ ان سب سے پہلے آلِ بیت رسول کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کو اپنے
|