تَحُوْمٌ تُہَلِّلُ لِلْمُدْلَجِیْنَ
جِبَالٌ تُوْرِثُ عِلْمًا جَبَالَا[1]
’’جب لوگ علم قرآن حاصل کریں گے تو قریش محمد باقر کے محتاج ہوں گے۔ اور بنت رسول کے بیٹے محمد باقر نے اس علم میں بے پناہ مہارت حاصل کی ہے۔ آپ اندھیری رات میں سفر کرنے والوں کے لیے روشنی کرتے پھرتے ہیں ، اور علم کا پہاڑ ہیں جو پہاڑ جیسا علم چھوڑ جاتا ہے۔‘‘
آپ دعا کی قدر و اہمیت سے بھی خوب واقف تھے آپ نے اپنے والد ماجد کو رات کی تنہائیوں میں یہ دعائیں مانگتے سنا تھا۔
اے اللہ! تو نے کہا ہے:
﴿ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ﴾ (ابراہیم: ۷)
’’اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔‘‘
اور تو نے یہ بھی کہا ہے:
﴿ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾ (غافر: ۶۰)
’’تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا اور جو میری عبادت سے از راہ تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘
اے اللہ! تو نے دعا مانگنے کو عبادت اور اس سے کترانے کو تکبر قرار دیا ہے اور انہیں ذلیل ہوکر جہنم میں داخل ہونے کی وعید سنائی ہے۔ [2] آج مسلمان کہاں ہیں ؟ وہ رب سے دعا مانگنے سے کدھر چلے گئے؟ کہاں ہیں بیمار؟ کہاں ہیں جن کے بچے گم ہوگئے ہیں ؟ غموں اور پریشانیوں میں مبتلا کدھر ہیں ؟ اور وہ اللہ سے مناجات کا کیا ہوا؟
|