سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبُّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ))
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بڑا بردبار اور کرم کرنے والا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بزرگ و برتر ہے، اللہ پاک ہے جو ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک ہے۔ سب تعریفیں اسی اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
پھر ایسا ہی ہوا۔ چنانچہ جب آپ کو ہشام بن اسماعیل کے پاس لایا گیا۔ آپ نے یہ دعا پڑھی تو آپ کا چہرہ دیکھتے ہی ہشام بے اختیار بول اٹھا: یہ تو ایسے شخص کا چہرہ ہے جس پر لوگوں نے تہمت لگائی ہے۔ ان کا رستہ چھوڑ دو اور ان کے بارے میں امیر المومنین سے بات کرو۔[1] اس کے بعد ہشام نے خلیفہ کو حسن المثنیٰ کی براء ت لکھ بھیجی۔ یوں رب تعالیٰ نے اپنے اس نیک بندے کو اس کی سچی دعا اور سچی التجاء کی بدولت نجات دی۔ سیّدنا حسن المثنیٰ نے ۹۸ھ میں وفات پائی۔
آپ کے فرزند ارجمند کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا جو علم و عمل، زہد و عبادت اور تقویٰ و طہارت میں بجا طور پر آلِ بیت رسول کا ایک عظیم فرد تھا۔ شرف وہیبت کی چہرۂ انو رپر ارزانی تھی۔ آپ کا لقب ’’المحض‘‘ یعنی خالص تھا۔ کیونکہ آپ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کے نسب کو جمع کرنے والے پہلے شخص تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت حسین تھا۔ آپ بنی ہشام کے شیخ ورئیس تھے۔ معتبر کتب احادیث میں آپ کی روایات مذکور ہیں ۔ مصعب بن عبداللہ کہتے ہیں : ’’میں اپنے علماء کو دیکھا ہے کہ جتنا وہ عبداللہ بن حسن المثنیٰ کا احترام کرتے تھے اتنا کسی اور کا نہ کرتے تھے۔‘‘ جنابِ عبداللہ بے پناہ بردبار تھے۔ یحییٰ بن معین کی روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کو گالی دی تو آپ نے اس کا یہ جواب دیا: ’’تو میرے برابر کا نہیں جو میں تمہیں گالی دوں اور نہ تو میرا غلام ہے کہ میں تمہیں گالی دینے کی حرص کروں ۔‘‘ [2] آپ نے
|