مقدس سمجھتے ہیں اور ہر حد سے ماوراء زندگیاں گزارتے ہیں ۔ ان کا معاملہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ ماوراء البشریت ہوتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ماتحتوں سے جاں گسل خدمات لیتے ہیں ۔ مگر اہل بیت کے بڑے قول و فعل دونوں میں بڑے تھے۔ یہ لوگ دنیا کمانے سے بے حد دور اور نفور تھے۔ بلکہ یہ لوگ استغفاء، عفت اور عفاف کے محلات تعمیر کرکے ان پر فخر کیا کرتے تھے۔ [1]
حسن مثنیٰ کی شادی اپنی چچا زاد فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہا سے ہوئی تھی۔ جب حسن مثنیٰ نے جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کی طرف نکاح کا پیغام بھیجا کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ میرا نکاح کر دیجیے۔ تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ: ’’اے میرے بیٹے! تمہیں میری دو بیٹیوں میں سے جو زیادہ پسند ہو اس کا انتخاب کرلو۔‘‘ جناب حسن المثنیٰ نے مارے حیاء کے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے تیرے لیے فاطمہ کو پسند کیا ہے کیوں کہ یہ میری ماں فاطمہ رضی اللہ عنہا کے زیادہ مشابہ ہے۔ سیّدنا حسن المثنیٰ کی شادی ۵۱ھ میں اس سال ہوئی جب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تھا۔ آپ اس حادثۂ فاجعہ میں شریک تھے اور آپ نے اپنے چچا سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا منظر آنکھوں سے دیکھا۔ یزیدیوں نے آلِ بیت رسول کے متعدد جوانوں کو شہید کر دیا۔ مگر آپ کم سن یا بیمار ہونے کی بنا پر یزیدیوں سے محفوظ رہے۔
تاریخ دمشق میں لکھا ہے کہ عبدالملک بن مروان نے اپنے مدینہ کے عامل ہشام بن اسماعیل کو لکھا کہ: ’’مجھے اس بات کی خبر ملی ہے کہ حسن المثنیٰ کی عراقیوں کے ساتھ بیعت کی بابت خط وکتابت چل رہی ہے، میرا یہ خط ملتے ہی انہیں میرے پاس بھیج دینا۔‘‘ جب آپ کے چچا زاد علی بن حسین کو اس بات کا علم ہوا تو کہنے لگے: اے میرے چچا زاد! تم یہ دعا مانگو جس کو کلمات فرج کہتے ہیں ۔
((لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ لِا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
|