ارشاد نبوی ہے:
((مَنْ بَطَّائَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ)) [1]
’’جس کو اس کے عمل نے (پیچھے چھوڑ دیا اور) سست کر دیا اس کا نسب اسے تیز کرنے والا (اور آگے کرنے والا) نہیں ۔‘‘
بے شک خالق اور مخلوق کے درمیان صرف ایک ہی رابطہ ہے اور وہ ہے تقویٰ اور عمل صالح۔ اسی بات کو جنابِ حسن المثنیٰ نے سمجھا اور عبودیت وبندگی کا حق ادا کیا۔ چنانچہ حسن مثنیٰ کہتے ہیں : ’’ہم سے محبت کرو اور اگر ہم اللہ کی نافرمانی کریں تو ہم سے نفرت کرو۔‘‘ [2] ایک دن ایک صاحب نے آکر اہل بیت کے بارے میں بے حد غلو کیا تو آپ نے اسے غصہ سے فرمایا: ’’تیرا بھلا ہو! ہم سے اللہ کے لیے محبت کرو۔ پس اگر تم ہم اللہ کی اطاعت کریں تو ہم سے محبت کرو اور اگر ہم اللہ کی نافرمانی کریں تو ہم سے بغض رکھو۔‘‘ وہ آدمی بولا: تم لوگ رسولِ خدا کے رشتہ دار اور اہل بیت ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر رسولِ خدا کی قرابت رب کی اطاعت کے بغیر کسی کو بچا سکتی ہوتی تو یہ ہم سے زیادہ قریبی رشتہ داروں کے کام آتی۔ اللہ کی قسم! مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ ہم میں سے نافرمان کو دوسروں کی بہ نسبت دو گنا عذاب ہو اور اس بات کی امید بھی ہے کہ ہم میں سے کے نیکو کار کو دو گنا اجر ملے۔ تمہارا بھلا ہو! اللہ سے ڈرو! اور ہمارے بارے میں حق بات کہو، کہ یہ بات تمہاری امید پوری کرنے والی اور ہم کو زیادہ راضی کرنے والی ہے۔‘‘ [3]
سبحان اللہ! یہ لوگ واقعی سردار تھے۔ انہیں جنابِ رسول اللہ کے ساتھ رشتہ داری پر بے حد غیرت تھی۔ یہ لوگ دنیاوی مفادات کی خاطر اس رشتہ داری کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے ہرگز نہ تھے۔ جیسا کہ دوسرے مذاہب وملل کے زعماء کی اولادوں کا دستور تھا اور ہے۔ جو خود کو
|