میری امید کہاں چلی گئی؟ اور پھر میرا تجھ سے ڈرنا! کہ اس کا کیا ہوا۔‘‘
اصمعی کہتے ہیں : میں آگے بڑھا۔ ان کا چہرہ کھولا تو دیکھا کہ وہ تو حسن بن حسین بن علی ہیں ۔ میں نے عرض کیا: اے میرے سردار! کیا آپ جیسا شخص بھی ایسی بات کرتا ہے حالانکہ آپ آلِ بیت نبوت اور معدنِ رسالت میں سے ہیں ۔ بولے: اے اصمعی! دور ہو اللہ نے طاعت گزار بندوں کے لیے جنت بنائی ہے خواہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو اور نافرمانوں کے لیے جہنم تیار کی ہے خواہ وہ قریشی ہی کیوں نہ ہو، اے اصمعی! کیا تم نے رب تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سن رکھا۔
﴿ فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ ﴿١٠١﴾ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿١٠٢﴾ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ﴾ (المومنون: ۱۰۱، ۱۰۳)
’’پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان میں قرابتیں ہوں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ تو جن کے (عملوں کے) بوجھ بھاری ہوں گے وہ فلاح پانے والے ہیں اور جن کے بوجھ ہلکے ہوں گے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خسارے میں ڈالا اور ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔‘‘ [1]
سبحان اللہ! اس علم و دانائی کے قربان جایے! بے شک یہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی عملی تفسیر ہے۔
’’اے گروہِ قریش! اپنی جانوں کو خرید لو کہ میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ بھی کام آنے والا نہیں ۔‘‘ [2]
اے میری بہنو اور میرے بھائیو! بے شک یہ ہمارے دین کی اقدار میں سے ایک نہایت عظیم قدر اور معیار ہے کہ ہم نام ونسب کی بجائے عمل پر انحصار کرتے ہیں ۔
|