والدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا ، چچا جعفر طیار رضی اللہ عنہ ہیں جن کا ٹھکانا جنت ہے۔ حق پرست ہاتھوں نے آپ کی پرورش کی، دامن اسلام میں پلے بڑھے، آپ کی رگوں میں اسلام کا خون تھا۔ آپ کی موت و حیات مبارک تھیں ۔ اگر آج دل میں آپ کے فراق کا غم ہے تو خوشی اس بات کی بھی ہے کہ موت آپ کے لیے خیر تھی بے شک آپ اور آپ کے بھائی جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ پس اے ابو محمد! تم پر ہماری طرف سے سلام۔‘‘ [1]
جب جنابِ حسین رضی اللہ عنہ کوفہ جانے کا پختہ ارادہ کرلیا تو آپ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ کو کوفہ نہ جانے کی وصیت کی۔ کہا: اللہ کی قسم! اے میرے بھائی! تو مجھے روئے زمین پر سب سے پیارا ہے۔ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ تم ان شہروں میں سے کسی شہر میں داخل مت ہونا ہاں دیہات میں ٹھہرنا اور لوگوں کو بلوا بھیجنا۔ اگر تو وہ آکر تیری بیعت کرلیں تو ان کے ساتھ شہر میں داخل ہونا۔ اگر آپ نے کسی شہر میں ضرور ہی داخل ہونا ہے تو مکہ چلے جایے۔ اگر تو آپ کو وہاں آپ کا مطلوب مل جاتا ہے تو ٹھیک ورنہ صحرا اور پہاڑوں میں چلے جایے۔ جنابِ حسین رضی اللہ عنہ نے اس نصیحت کو سن کر فرمایا: ’’اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ تم نے خیر خواہی اور شفقت کی۔‘‘ [2]
محمد بن حنفیہ کے حوالے سے مختار ثقفی کے فتنہ کا ذکر بھی ضرور آتا ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :
مختار کے فتنہ کا آغاز یوں ہوا کہ سیّدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے مکہ بھیجا تاکہ وہ ان لوگوں سے آپ کے لیے بیعت لے۔ لیکن مختار نے وہاں جاکر لوگوں میں یہ مشہور کر دیا کہ ابن زبیر اس بیعت کے در پردہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینا چاہتے ہیں ۔ مزید یہ کہا کہ محمد بن حنفیہ اس بات کے مدعی ہیں کہ اخیر زمانہ میں نکلنے والے مہدی وہی ہیں ۔ انہوں نے ہی مجھے حکم دیا ہے
|