Maktaba Wahhabi

202 - 378
مددگاروں کے ساتھ انہیں مدینہ تک لے جاؤ۔ اس گفتگو کے بعد سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا اپنے اہل کے ساتھ یزید کے حکم سے یزید کے گھر میں جا اتریں ۔ آلِ معاویہ کی سب عورتوں نے رو رو کر ان کا استقبال کیا۔ یہ سب عورتیں جنابِ حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے قاتل پر گریہ کر رہی تھیں ۔ بالخصوص سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد بے حد رو رہی تھی۔ اس واقعہ میں آپ کے دو بیٹے عون اکبر اور محمد نے بھی شہادت پائی تھی۔ ان خواتین نے آلِ جعفر اور بنی عبدالمطلب کے شہیدوں پر بھی آنسو بہائے۔ اس کے بعد یزید نے ان سب کو جوڑے مرحمت کیے۔ شامی صاحب کو خوب وصیت کی۔ وہ صاحب انہیں رات کو لے کر چلتا تھا۔ خود پیچھے رہ کر سب کی نگرانی کرتا۔ جب پڑاؤ ڈالتے تو یہ شامی اور اس کے ساتھ چاروں طرف پھیل کر خوب حفاظت کرتے۔ نماز وضو کی پوری نگرانی کرائی۔ حوائج ضروریہ کا بے حد خیال رکھا۔ غرض یہ صاحب نہایت لطف ومہربانی سے انہیں مدینہ منورہ تک لے گیا۔ [1] غموں کا یہ مارا قافلہ مدینہ پہنچ گیا، بے پناہ حزن وملال کے اس عالم میں بھی سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ احسان کرنے والے کے ساتھ احسان کرنا نہ بھولیں ابن اثیر اور طبری نے آپ کے بے پناہ جود وکرم کا قصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ’’فاطمہ بنت علی کہتی ہیں کہ: میں نے اپنی بہن زینب سے کہا: اے میری بہن! ان شامی صاحب نے سارے رستے ہمارے ساتھ بے حد صلہ رحمی کی ہے تو کیاآپ بھی ان کے ساتھ صلہ رحمی کریں گی۔ وہ بولیں : اللہ کی قسم! ہمارے پاس اس زیور کے سوا کچھ نہیں جس کے ساتھ ان صاحب سے صلہ رحمی کریں ۔‘‘ فاطمہ بولیں : پھر ہم ان کے ساتھ اسی زیور کو دے کر صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ چنانچہ سب نے اپنے کنگن اور باز و بند اتارے اور ان صاحب کو بھجوا کر کہا: ’’تم نے راستہ بھر میں ہمارے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے یہ اس کی جزا ہے۔‘‘ وہ بولے: ’’اگر تو میں یہ سب کچھ دنیا کے لیے کیا تھا تو اتنا زیور بلکہ اس سے بھی کم میری خوشی کے لیے بہت ہے۔ لیکن میں نے یہ
Flag Counter