Maktaba Wahhabi

201 - 378
بھی باقی نہ رہیں گے، اور سوائے اللہ کی ذات کے سب ہلاک ہو جائیں گے، میرے والد مجھ سے بہتر تھے، میری ماں مجھ سے بہتر تھی، میرا بھائی مجھ سے بہتر تھا۔ میرے لیے، ان کے لیے اور ہر مسلمان کے لیے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں اسوہ ہے۔‘‘ اس کے بعد جنابِ حسین رضی اللہ عنہ نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اے میری بہن! اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ نہ تو تم گریباں چاک کرنا نہ چہرہ پیٹنا اور نہ مجھ پر واویلا کرنا۔‘‘ [1] پھر وہ نہایت اندوہ ناک اور دلدوز واقعہ اور عظیم حادثہ پیش آگیا۔ جنابِ حسین رضی اللہ عنہ شہید کر دیے گئے۔ لیکن سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اور رب تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اس عظیم حادثہ پر بھائی کی وصیت کے مطابق ذرا بھی جزع فزع نہ کی۔ جب آپ کو اپنے اہل کے ساتھ یزید کے پاس شام لے جایا گیا تو آپ نے یزید کے سامنے بے حد جرأت کا ثبوت دیا۔ چنانچہ آپ نے یزید کے سامنے مختصر مگر بے حد مدلل گفتگو کی اور جناب حسین رضی اللہ عنہ کے اوصاف کو نہایت خوبی سے بیان کیا جس پر اس دن آپ کی بہن فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہما کہنے لگیں : میری بہن زینب مجھ سے بڑی اور زیادہ عقل مند تھی۔[2] تاریخی مآخذ نے سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا اور یزید کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا بے پناہ عقل مند، قوی الحجت اور فصیع وبلیغ تھیں ۔ بالآخر مارے شرم کے یزید کو سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا کے سامنے لاجواب ہونا پڑا پھر یزید نے آپ کا بے حد اکرام و اعزاز کیا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ آپ کو مدینہ واپس کیا۔ جن لوگوں کے ساتھ آپ کو روانہ کیا، انہیں اس بات کی وصیت کی کہ: ’’ان کے لیے ان کے مناسب سامانِ سفر تیار کردو، اور ایک امانتدار اور صالح شامی شخص ان کے ساتھ روانہ کرو۔ گھوڑوں اور
Flag Counter