والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔‘‘
سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے کہیں سے یہ بات سن لی کہ کعب احبار لوگوں کو یہ بتلاتے پھرتے ہیں کہ ’’سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ جہنم کے دروازے پر کھڑے ہیں ۔‘‘ آپ کو یہ بات سن کر بے حد افسوس ہوا۔ آپ نے اس کا بے حد غم کیا۔ یہاں تک کہ رو پڑیں ۔ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی یہ ساری کیفیت سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محبت میں تھی۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر ہنس پڑے اور فرمایا: ماشاء اللہ! اللہ کی قسم! میں اس بات کی امید کرتا ہوں کہ رب تعالیٰ نے مجھے (ازل اور تقدیر میں ) سعادت مند پیدا کیا ہوگا۔ پھر آپ نے سیّدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ کو بلوا کر اس بابت پوچھا کہ یہ تم کیا کہتے پھر رہے ہو تو انہوں نے عرض کیا: ’’اے امیر المومنین! … یہاں تک کہ آپ جنت میں داخل ہو جائیں ۔‘‘ آپ نے فرمایا: اے کعب احبار! یہ کیا بات ہوئی کہ کبھی جنت میں (داخل کرتے ہو) تو کبھی جہنم میں ۔ اس پر سیّدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اے امیر المومنین! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! ہم اللہ کی کتاب میں (یعنی تورات میں ) آپ کے بارے میں یہ لکھا پاتے ہیں کہ آپ جہنم کے دروازے پر کھڑے لوگوں کو جہنم میں گرنے سے روک رہے ہیں ۔ پس جب آپ کا انتقال ہو جائے گا تو پھر لوگ قیامت تک جہنم میں گرتے رہیں گے[1] (اور انہیں روکنے والا کوئی نہ ہوگا) سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا یہ بات سن کر بے حد مسرور ہوئیں اور ان کی خوشی لوٹ آئی اور غم جاتا رہا۔
سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے ہاں جنابِ عمر رضی اللہ عنہ سے دو اولاد ہوئی۔ زید اور رقیہ۔ زید قریش کے سرداروں میں سے تھے۔ جب زید سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے تو انہوں نے آپ کا بے حد اکرام و اعزاز کیا۔ آپ کے لیے سالانہ ایک لاکھ درہم وظیفہ جاری کیا۔ زید لوگوں کے سامنے یہ فخر سے کہا کرتے تھے کہ ’’میں دو خلیفہ کا بیٹا ہوں ۔‘‘[2] جی ہاں ! کیونکہ آپ کے والد خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں اور نانا خلیفہ راشد امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی
|