Maktaba Wahhabi

196 - 378
طالب رضی اللہ عنہ ہیں ۔ زید نے دو نسب اپنی ذات میں جمع کیے عمری اور علوی۔ اے زید! تمہیں مبارک ہو اور تم واقعی مبارک باد کے مستحق ہو۔ تمہیں اس بات پر فخر کرنے کا بھی حق ہے کہ: ’’میں دو خلیفہ کا بیٹا ہوں ۔‘‘ نہایت دکھ کی بات ہے کہ زید جوانی میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ آپ کے انتقال کر جانے کا قصہ یہ ہے کہ بنی عدی بن کعب میں جھگڑا ہوگیا۔ آپ ان میں صلح کی بات کرنے رات کے وقت بقیع کی طرف نکلے۔ دوران گفتگو اچانک غلطی سے کسی کے ہاتھوں آپ کے سر پر ایک ضرب لگ گئی۔ آپ اپنی سواری سے نیچے گر گئے۔ اندھیرے میں کسی کو خبر نہ ہوسکی کہ ان کے ہاتھوں کس کو چوٹ لگی ہے۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو زید بن عمر ہیں تو زید! زید! کا شور پڑ گیا۔ یہ سنتے ہی لوگ متفرق ہوگئے۔ لوگ زخمی حالت میں گھر چھوڑ گئے۔ بالآخر یہی زخم جان لیوا ثابت ہوا اور آپ تقریباً ۵۰ ھ میں انتقال فرما گئے۔ ایک قول یہ ہے کہ زید اور ان کی والدہ سیّدہ ام کلثوم ایک ہی وقت میں بیمار ہوئے اور دونوں کا ایک ہی وقت میں انتقال ہوا۔ حتی کہ یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ دونوں میں سے پہلے کس کی روح نے پرواز کیا تھا۔ دونوں کا جنازہ اکٹھا اٹھا۔ جناز گاہ میں ایک ہی جگہ دونوں میتوں کو رکھا گیا۔ پہلا جنازہ جنابِ زید کا تھا اور ان کے بعد ان کی والدہ سیّدہ ام کلثوم کا جنازہ رکھا تھا۔ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کا ایک وقت میں جنازہ پڑھایا۔ جناب حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ کہہ کر آگے بڑھنے کو فرمایا تھا کہ: ’’آگے بڑھو اور اپنی ماں اور بھائی کا جنازہ پڑھاؤ۔‘‘[1] کیونکہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ زید کے باپ کے شریک بھائی اور سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے سوتیلے بیٹے تھے۔ عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے ان اشعار میں زید کا مرثیہ پڑھا: اِنْ عَدْیَا لَیْلۃَ الْبَقِیْعِ تَکْشَفُوْا عَنْ رَجُلٍ صَرِیْعِ
Flag Counter