ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں اس سعادت مند جوڑے کے بارے میں ایک نہایت عبرت آموز واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ جنابِ عمر رضی اللہ عنہ سیّدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا کہ وہ بیٹھی رو رہی ہیں ۔ آپ نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگیں : اے امیر المومنین! یہ یہودی آپ کا اشارہ کعب احبار کی طرف تھا۔ یہ کہتا ہے کہ آپ جہنم کے ایک دروازے پر کھڑے ہیں ۔
کعب احبار یہود کے بڑے عالم تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام لے آئے تھے اور خوب اسلام لائے۔ کعب دورِ فاروقی میں یمن سے مدینہ آئے تھے۔ کعب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھ کر انہیں اسرائیلی کتب کی روایات بیان کرتے تھے۔ کعب احبار نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی بعض وہ صفات بھی ذکر کیں جن کا ذکر قرآنِ کریم میں آتا ہے اور اسرائیلی کتب میں بھی وہی مذکور ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ﴾(الفتح: ۲۹)
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں ۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل (اے دیکھنے والے!) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں (کثرتِ سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں (وہ) گویا کہ ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر موٹی سوئی اور پھر اپنی نال پر کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی
|