Maktaba Wahhabi

176 - 378
نے پہنچ کر صلح کی بات چیت کی۔ آپ نے دونوں کی گفتگو بڑے غور سے سنی۔ پھر فرمایا: بھلا اس بات کا ضامن کون ہے کہ معاویہ وفا کریں گے؟ بولے: ہم ضامن ہیں ۔ یہ سنتے ہی آپ صلح پر آمادہ ہوگئے اور تمام بات چیت طے پاگئی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنابِ حسن میں سیادت و قیادت کی زبردست صلاحیت تھی۔ کہ کیسے قوم میں امن و اطمینان قائم کیا جاتا ہے اور ان میں اتفاق و اتحاد قائم کرکے انہیں کس طرح ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاتا ہے۔ آپ چاہتے تو جنگ کرسکتے تھے لیکن آپ نے صلح کرنے کو ترجیح دی۔ لیکن کیوں ؟ کسی لذت، قلت، یا علت کی بنا پر نہیں بلکہ امت میں توحید پیدا کرنے کے لیے۔ ان کے خونوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے۔ اس کی دلیل خود سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے کہ: ’’عربوں کے قبیلے میری مٹھی میں ہیں وہ اس کے ساتھ صلح کریں گے جس کے ساتھ میں صلح کروں اور جس سے میں جنگ کروں گا اس کے ساتھ وہ بھی جنگ کریں گے۔ مگر میں نے اللہ کی رضا کے لیے جنگ ترک کر دی ہے۔‘‘ اے حسن رضی اللہ عنہ ! سبحان اللہ! تو کتنا عظیم امام ہے بلکہ تو اتفاق و اتحاد کا امام ہے۔ دنیا نے اگر امن و سلامتی اور وحدت و الفت کا درس سیکھنا ہے تو تیرے در پر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ امت نے صلح کے اس سال کا نام ہی ’’عام الجماعہ‘‘ (اتفاق و اتحاد اور وحدت و یگانگی کا سال) رکھ دیا۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی بدولت سب مسلمانوں نے سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت و زعامت اور سیادت و خلافت پر اتفاق کرلیا اور افتراق و انتشار اور بد نظمی وپراگندگی کی چھائی طویل رات ڈھل گئی اور یوں امت مسلمہ کے افق پر امن و سلامتی اور الفت و محبت کا آفتاب طلوع ہوا۔ اب باہمی ناچاقی ہوا ہو گئی۔ جس سے سب مسلمان اعدائے اسلام کے ساتھ جنگ و قتال کرنے کے لیے فارغ ہوگئے اور فتوحاتِ اسلامیہ کا دائرہ نہایت دور تک پھیلنے لگا۔ کیا اہل اسلام کے لیے یہ ممکن ہے کہ صلح کے اس عظیم واقعہ کا ذکر آنے پر وہ جہاں رب
Flag Counter