Maktaba Wahhabi

175 - 378
کیونکہ ہمیں امام حسن رضی اللہ عنہ جیسے آئمہ کی سیرت سے ہی اختلاف کی فقہ اور مصالح و مفاسد کا ادراک حاصل ہوتا ہے اور انسانیت کو مقاصد شرعیہ اور خواہشاتِ نفس پر قابو پانے کا شعور ملتا ہے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ رب تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمان کی ’’دو عظیم‘‘ جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔[1] ’’عظیم‘‘ کا لفظ اس بات کی طرف ہے کہ ان دنوں تمام مسلمانوں دو جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک جماعت جنابِ حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی تو دوسری جماعت سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی۔ پھر واقعی ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی۔ بیشک یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ اس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے: جب سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے والد ماجد امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد زمامِ خلافت سنبھالی اور اس بھاری ترکہ کو کندھے پر اٹھایا جو جنابِ علی رضی اللہ عنہ چھوڑ گئے تھے تو دیکھا کہ جنابِ علی رضی اللہ عنہ کے زبیر خلافت علاقوں میں شدید ابتری اور انار کی پھیل گئی ہے۔ ہر طرف بغاوت کی پکاریں ہیں ۔ تلواریں شامیوں کا خون پینے کو بے چین ہیں ۔ عراقی آپ کے اور شامی سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ لشکر لے کر روانہ ہوئے اور مدائن جاکر فروکش ہوگئے۔ مدائن بغداد سے چھ فرسخ کے فاصلے پر ہے۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ قتال کی بجائے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح کرنے کی طرف مائل تھے۔ لیکن آپ نے زبردست بصیرت و فراست کا اظہار کیا جو آپ کی گہری فقاہت کو بتلاتی تھی۔ وہ یوں کہ آپ نے ابتداء میں عراقیوں کو صلح کی طرف متوجہ نہ کیا کیونکہ آپ عراقیوں کی طبیعت و فطرت سے خوب واقف تھے۔ کہ یہ لوگ جنگجویانہ مزاج کے ہیں ۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے خروج کی خبر سن سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی تیاری کرکے عراق کی طرف چل پڑے۔ پھر پہلے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے صلح کی بات چیت کرنے کے لیے اپنے دو قاصد روانہ کیے۔ قاصدوں
Flag Counter