بلکہ آپ ہر کام کی مشکلات اور اس کی رکاوٹوں سے بھی آگاہ ہوتے تھے اور ان سے نبٹنا بھی جانتے تھے۔ سیّدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر ارشاد فرماتے سنا۔ اس وقت حسن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھے تھے، تو کبھی لوگوں کی طرف التفات فرماتے تو کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھتے۔‘‘ پھر ارشاد فرمایا:
’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، شاید اللہ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے۔‘‘ [1]
اس حدیث میں جنابِ حسن رضی اللہ عنہ کی بے حد منقبت بیان کی گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس بات کی خبر دی کہ حسن سردار ہیں ۔ سردار قوم کا بڑا ہوتا ہے۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو یہ لقب دربارِ رسالت سے عطا ہوا، لیکن یہ کیسا لقب ہے؟ یہ کس سیادت و ریاست اور سرداری کا مژدۂ جانفزا ہے…!!! اس کی خبر خود سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت دیتی ہے، آپ نے قیامت تک آنے والی انسانیت کو سکھلایا کہ سیادت و سرداری یہ قہر وجبر اور خونریزی کا نام نہیں ، یہ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے اور لاشوں کا انبار لگانے کا نام نہیں ۔ بلکہ سرداری تو جانوں ، مالوں ، خونوں اور عزتوں کی حفاظت کا نام ہے۔ حقیقی سیادت بغض و نفرت کی آلائشوں کو دھو کر سینوں کو بے کینہ کر دیتی ہے۔ سچی سرداری نا اتفاقی ختم کرکے اتفاق و اتحاد پیدا کرتی ہے۔ اصلاحِ احوال اس کا پہلا ثمرہ ہوتا ہے، جس سے قوم کا کلمہ ایک ہو جاتا ہے۔
یہی درس ہمیں امام حسن رضی اللہ عنہ کی سیرت سے ملتا ہے۔
سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کی سیرۃ تاریخ انسانیت کا ایک روشن ترین ورق ہے۔ آپ وہ امام تھے جن کی پیروی ذریعہ نجات ہوتی ہے۔ ان کے قول و فعل کو نمونہ بنایا جاتا ہے اور ان کی سیرت ایمان وجذبات کا قوی مصدر ومنبع ہوتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جن کی ہر ہر حرکت سے دین کا فہم سلیم حاصل ہوتا ہے۔ پر کیوں اور کیسے؟
|