Maktaba Wahhabi

173 - 378
بوسہ دیا کرتے تھے تاکہ میں بھی وہاں بوسہ دوں ۔‘‘ اس پر سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بطن کھولا تو سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی ناف پر بوسہ دیا۔[1] فِیْ رَوْضِ فَاطِمَۃَ نَمَا غَصْنَانِ لَمْ یَنْجِبْہُمَا فِی النَّیِّیرَانِ سِوَاہَا فَاَمِیْرُ قَافِلَۃَ الْجِھَادِ وَ قُطُبِ دَائِرَۃَ الْوِئَامِ وَالْاِتِّحَادِ اَبْنَاہَا حَسَنُ الَّذِیْ صَانَ الْجَمَاعَۃَ بَعْدَہَا اَمْسٰی تَفَرَّقَھَا یَحِلُّ عَرَاھَا تَرَکَ الْاِمَامَۃَ ثُمَّ اَصْبَحَ فِی الدِّیَارِ امام الفتھا وحسن علاہا ’’سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باغ میں دو شاخیں پھلی پھولیں کہ اس باغ میں ان دو سے زیادہ روشن شاخیں اور نہ اگیں ۔ سیّدہ فاطمہ کے یہ دونوں بیٹے قافلہ جہاد کے امیر اور اتفاق و اتحاد کے نکتۂ ارتکاز تھے۔ یہ دیکھیے! یہ حسن بن علی ہیں جنہوں نے اس جماعت کو اس کے بعد کہ اس کا شیرازہ بکھر گیا تھا اور افتراق و انتشار نے اس کے صحن میں ڈیرے ڈال دئیے تھے جوڑا اور اس کی شیرازہ بندی کی۔ آپ خلافت و امامت سے دست بردار ہوکر بلاد وامصار میں محبوب خلائق بن گئے اور آپ نے آبادیوں کے حسن میں اور بھی اضافہ کیا۔‘‘ میرے بھائیو! جناب حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی سیرت ہمیں بتلاتی ہے کہ ایک امیر اور قائد کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیے اس کی ماضی حال اور مستقبل کے سب احوال پر گہری نگاہ ہو، وہ صرف اللہ ہی سے مدد کا خواستگار ہو۔ آپ زبردست اصلاحی صفات اور تنفیذی قوت کے مالک تھے، آپ کی دور رس نگاہیں اسباب و شرائط اور مراحل و نتائج سب پر جمی ہوتی تھیں ۔
Flag Counter