Maktaba Wahhabi

172 - 378
میں نے خچر پر سوار ایک صاحب دیکھے میں نے ان سے زیادہ خوبرو، وجیہ اور خوش لباس کسی اور کو نہ دیکھا۔ میرا دل ان کی طرف مائل ہوگیا۔ میں نے ان صاحب کے بارے میں پوچھا تو بتلایا گیا کہ یہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘ یہ سن کر میرا دل ان کی نفرت سے بھر گیا۔ مجھے علی رضی اللہ عنہ پر اس بات کا حسد ہوا کہ ان کا بیٹا بھی ان جیسا ہو۔ پس میں نے ان کے پاس جاکر انہیں سب و شتم کرنا شروع کردیا۔ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ تم مسافر پردیسی ہو‘‘ میں نے کہا: جی ہاں ! تو فرمایا: ’’گزر جاؤ۔ اگر ٹھکانا چاہتے ہو تو ٹھکانا دیتے ہیں ، مال چاہیے تو وہ دیتے ہیں ، کوئی حاجت ہے تو تیری مدد کرتے ہیں ۔‘‘ وہ شامی کہتا ہے: میں یہ بات سن کر لوٹ گیا۔ اور اب مجھے روٹے زمین پر حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا۔ میں نے کوب سوچا کہ میں نے کیا کیا اور انہوں نے کیا کیا۔ پھر میں نے ان کی تو شکر گزاری کی اور خود کو بے حد ملامت کیا۔ [1] سیّدنا حسن بن علی ابو محمد رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا کی رسالت کے زیر سایہ تربیت حاصل کی۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نبوی اخلاق و عادات سے آراستہ کیا، عدل وانصاف اور یسر و سماحت کی خوبیوں سے مزین کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ اَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَبْغَضَہُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ)) [2] ’’جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ اسی لیے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جنابِ حسن رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت کرتے تھے ایک مرتبہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مدینہ کے رستے میں جناب الحسن رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی تو عرض کیا: ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ ذرا اپنے بطن کا وہ حصہ تو کھولیے، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter