نے امن دیا ان کو ہم نے بھی امن دیا۔‘‘[1]
آپ کے بھائی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو قتل کرنا چاہا تو آپ نے دروازہ بند کرلیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں کے لیے امان طلب کرلی جو دے دی گئی۔ ذرا دیکھیے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر حقوق دیے ہیں کہ اس کی دی پناہ کا اس قدر احترام ہے۔ حتی کہ ابن المنذر کہہ اٹھے: ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کا پناہ دینا جائز ہے صرف ابن ماجشون اس کے عدمِ جواز کے قائل ہیں ۔‘‘ [2]
ہبیرہ تو نجران بھاگ گئے جب کہ سیّدہ ام ہانی ایمان لے آئیں ۔ اس بنا پر دونوں کے درمیان تفریق کر دی گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے خود نکاح کر لینا چاہا تو عرض کرنے لگیں کہ: ’’یارسول اللہ! میں عمر رسیّدہ اور عیال دار ہوں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ عذر قبول فرمایا۔ اور آپ کے بارے میں فرمایا:
((خَیْرُ نِسَائٍ رَکِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُ نِسَائِ قُرَیْشٍ أَحْنَاہُ عَلَی وَلَدٍ فِی صِغَرِہِ وَأَرْعَاہُ عَلَی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہِ)) [3]
’’اونٹوں پر سوارہونے والی سب سے بہتر عورتیں ۔ قریش کی سب سے نیک عورتیں جو اپنے ننھے بچوں پر سب سے زیادہ شفیق اور خاوند کے مال کی سب سے زیادہ حفاظت کرنے والی ہے۔‘‘
اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتوں کی بنا پر قریش کی عورتوں اور بالخصوص سیّدہ ام ہانی کو سب سے نیک عورت قرار دیا ہے:
۱۔ اولاد پر بے حد شفقت ومہربانی: کہ قریش خواتین اپنی اولادوں پر بے حد شفیق و مہربان ہوتی ہیں حتی کہ ان پر شفقت کی بنا پر دوسری شادی نہیں کرتیں ۔
|