میں ہی رہیں ۔ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کی خبریں متواتر ملتی رہتی تھیں اور آپ سن کر بے حد مسرور ہوتیں ۔ حتی کہ فتح مکہ کا زمانہ آگیا اور ۸ھ میں مکہ فتح ہوگیا۔ اسلام مکہ کی وادی پر غالب آیا۔ بیت اللہ سے کفر و شرک کا ہر نشان مٹا دیا گیا۔ آپ کا خاوند ہبیرہ فتح مکہ کی خبر سن کر فرار ہوکر نجران چلا گیا۔ اور اسلام قبول نہ کیا۔ جب کہ سیّدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا اپنے بچوں سمیت اسلام لے آئیں ۔
فتح مکہ کا دن بے حد عظیم تھا۔ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بے پناہ عظمتوں اور بلندیوں کا اظہار کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو یک لخت یہ کہہ کر معاف کر دیا:
((اِذہَبُوْا فَاَنْتُمْ الطُّلَقَائُ))
’’جاؤ تم سب لوگ آزاد ہو۔‘‘
اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض بے حد برے اور بڑے دشمنانِ اسلام کے خون کو رائیگاں قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ جہاں بھی ملیں ان کو قتل کر دیا جائے۔ چاہے کعبہ کے پردوں میں بھی ملیں ۔ کیونکہ ان بعض لوگوں نے دین خدا اور پیغمبر الہ کی دشمنی اور عداوت کی حد کر دی تھی۔
اس دن سیّدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرما رہے۔ سیّدہ فاختہ، چچیری بہن کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان الفاظ کے ساتھ خوش آمدید کہا:
((مَرْحَبًا بِاُمِّ ہَانِیئٍ))
’’ام ہانی کو مرحبا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات نماز ادا فرمائی بعد میں سیّدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ انہوں نے اپنے دو مشرک دیوروں کو پناہ دے دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جن کو اے ام ہانی! تم نے پناہ دی، ہم نے پناہ دی۔‘‘ [1] ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ’’جن کو تم
|