فطالما قد کنتِ مطمئنۃ
اراکِ تکرہین الجنۃ
’’اے نفس! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ضرور اتر کر کفار اشرار کے ساتھ قتال کرے گا۔ اب خوشی سے اتر یا ناگواری سے تو نے کتنا زمانہ بڑے اطمینان سے گزارا ہے، کیا بات ہے، میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تو جنت کو ناپسند کر رہا ہے۔‘‘
پھر گھوڑے سے اتر کر قتال کیا حتی کہ شہید ہوگئے۔ ان کے بعد سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں لے لیا۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ (جامعہ نماز) کی منادی کرادی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اکٹھے ہونے پر آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ میدانِ کار زار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں کے سامنے کر دیا گیا۔ اور فرمایا: ’’زید نے جھنڈا لیا اور شہید ہوگیا۔ ان سے جعفر نے لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر ابن رواحہ نے لے لیا، وہ بھی شہید ہوگئے۔ راوی کا بیان ہے کہ یہ سب سنتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ (آگے فرمایا) یہاں تک کہ جھنڈے کو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لے لیا۔ یہاں تک کہ اللہ نے انہیں فتح دی۔‘‘ [1]
اسی دن سے سیّدنا خالد رضی اللہ عنہ کا لقب سیف اللہ پڑ گیا۔
دوستو! اگر سر زمین حبشہ نے سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو صابر و شاکر، عابد وزاہد، داعی ومعلم اور خطیب و واعظ دیکھا تھا تو سر زمین مؤتہ نے آپ کو مجاہد صادق، ثابت قدم شجاع اور عظیم شہید کے روپ میں دیکھا جس کے بدن کے انگ انگ سے خون بہہ رہا تھا۔ بخاری کی روایت کے مطابق آپ کے بدن پر تیر، تلوار اور نیزوں کے نوے سے زیادہ زخم تھے جو سب کے سب سامنے تھے، پیٹھ پر ان میں سے ایک زخم بھی نہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی عظیم قربانی پر آپ کو ’’جعفر طیار‘‘ کا وہ لقب عطا فرمایا جس سے دنیا اس سے قبل اور خود آپ اپنی زندگی میں واقف نہ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری دنیا کو اس بات کی خبر دی کہ رب تعالیٰ نے انہیں
|